غیر قانونی تارکین وطن اور روزگار کی یورپی منڈی
11 فروری 2009اسی پس منظر میں ابھی حال ہی میں شٹراس برگ کی یورپی پارلیمان نے ایک ایسے مسودہ قانون کی اکثریتی رائے سے حمائت کردی جس میں بہت سے نئے اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔
غیر قانونی طور پر یورپ میں داخل ہونے والے غیر ملکی اپنی سماجی بقاء کے لئے آمدنی اور روزگار کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ اپنی اسی مجبوری کی وجہ سے وہ ایسی معمولی اور جزوقتی ملازمتیں قبول کرنے پر بھی تیار ہو جاتے ہیں جن کے ذریعے سستی افرادی قوت کے خواہش مند یورپی پیداواری اور کاروباری ادارے ان کا معاشی استحصال کرتے ہیں۔
ایسے غیر ملکی جنوبی اسپین میں سخت گرمی میں کھیتوں میں کی جانے والی مزدوری سے لے کر وسطی یورپی ملکوں میں تعمیراتی شعبے تک ہر جگہ کام کرتے نظر آتے ہیں لیکن بظاہر کوئی بھی یہ نہیں پہچان سکتا کہ وہ قانونی طور پر کام کرنے والے کارکن ہیں یا غیر قانونی تارکین وطن۔
روزگار کی یورپی بلیک مارکیٹ
یورپی لیبر مارکیٹ پر بہت قریب سے نظر رکھنے والے ماہرین کا اندازہ ہے کہ یونین کے رکن 27 ملکوں میں غیر قانونی طور پر مقیم ایسے غیر ملکیوں کی تعداد آج بھی پانچ اور آٹھ ملین کے درمیان بنتی ہے۔ اس کے علاوہ ایسے غیر یورپی باشندوں کی سالانہ تعداد بھی قریب ایک ملین بنتی ہے جو محدود عرصے کے لئے بلا اجازت کام کرنے کے ارادے سے ہر سال یورپ آتے ہیں اور زیادہ تر اپنے ملکوں کو واپس بھی چلے جاتے ہیں۔
غیر قانونی افرادی قوت کے استحصال کے خاتمے کے لئے نئے یورپی ضابطوں میں سب سے زیادہ توجہ ایسے کارکنوں کے آجر اداروں کے خلاف کارروائی پر دی گئی ہے نہ کہ استحصال کے شکار ان غیر ملکیوں پر جو پہلے ہی ہر طرح کے سماجی تحفظ سے محروم ہوتے ہیں۔
ٹریڈ یونینوں کا مئوقف
یورپی ٹریڈ یونینوں کی فیڈریشن کے نائب سیکریٹری جنرل رائینر ہوفمن کہتے ہیں کہ اس امر کا تعین کرنا قطعی مشکل نہیں ہے کہ اس شعبے میں یورپ میں کئی طرح کی مجرمانہ توانائی پائی جاتی ہے۔ انسانی وقار کی نفی کا سبب بننے والے اور بالکل ناقابل یقین حالات میں پہلے انسانوں کی تجارت کرتےہوئےان غیر ملکیوں کو غیر قانونی طور پر یورپ پہنچایا جاتا ہے اور پھر انتہائی سستی افرادی قوت کے طور پر ان کا معاشی استحصال کیاجاتا ہے۔
یورپی پارلیمان کی طرف سے اس سلسلے میں جس مسودہ قانون کی وسیع تر حمائت کردی گئی ہے اس میں مختلف ملکوں میں غیر قانونی طور پر کام کرنے والے غیر ملکیوں کے مالی استحصال کی وجہ بننے والے آجرین کے لئے سزائے قید سے متعلق کوئی مشترکہ تجاویز شامل کیوں نہیں کی گئیں۔ اس بارے میں یورپی ٹریڈ یونینوں کی فیڈریشن کے مرکزی عہدیدار رائینر ہوفمن کامئوقف بھی بہت قائل کردینے والا ہے۔
رائینر ہوفمن کہتے ہیں کہ یورپی یونین کی طرف سے ایسی سزاؤں کی مدت کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس حوالے سے یونین کو حاصل اختیارات بہت محدود ہیں۔ یورپی یونین کو یہ بات بھی مدنظر رکھنا ہوتی ہے کہ رکن ریاستیں اپنے ہاں قانون سازی کس طرح کرتی ہیں اور پھر ملکی سطح پر مئوثر قانون سازی کرتے ہوئے ایسی پابندیاں متعارف کرانے کی کوشش کی جاتی ہے جن پرمکمل عمل درآمد ممکن ہو۔
جرمنی میں جو قوانین پہلے ہی سے رائج ہیں ان میں افرادی قوت کے شعبے میں بلیک مارکیٹ کے خلاف اقدامات کے طور پر سزائے قید کا امکان بھی مروجہ قانون کا حصہ ہے اور یہی قانون انسانوں کی تجارت کی روک تھام سے متعلق اقدامات کا احاطہ بھی کرتا ہے۔
یورپی آجرین کی نئی ذمہ داریاں
یورپی یونین ایسے تارکین وطن کو اس بلاک کی رکن ریاستوں میں کوئی بھی ملازمت دیئے جانے پر عمومی پابندی عائد کرنا چاہتی ہےجن کا تعلق یونین سے باہر کے ملکوں سے ہواور جو کسی قانونی اجازت نامے کے بغیر اس بلاک میں رہائش پذیر ہوں۔ نئے ضابطوں کے تحت یورپی آجر ادارے یہ تحقیق کرنے کے پابند ہوں گے کہ جس کارکن کو وہ ملازمت دینا چاہتے ہیں وہ یورپی یونین میں قانونی طور پر رہائش پذیر ہے یا نہیں۔
اس کے علاوہ رکن ملکوں سے سرکاری محکموں کی سطح پر مسلسل چھان بین کرتے رہنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ یورپی آجرین کو اس صورت میں بھی قانون کے تحت جواب دہ ہونا پڑے گا جب غیر قانونی تارکین وطن کو ملازمتیں دینے کی غلطی ان کے اپنے اداروں نے براہ راست نہیں بلکہ ان کی ذیلی کمپنیوں نے کی ہو۔
مستقبل میں اگر یہ ثابت ہو گیا کہ کسی یورپی ادارے نے اپنے ہاں غیر قانونی تارکین وطن کو ملازمت دے رکھی ہے تو اسے نہ صرف جرمانے کی سزا سنائی جائے گی بلکہ ایسے کسی بھی ادارے کو ٹیکسوں اور سوشل سیکیورٹی کی مد میں سرکاری خزانے میں وہ تمام رقوم بھی جمع کرانا ہوں گی جو اس نے بچانے کی کوشش کی ہوگی۔
یہی نہیں ایسے آجر اداروں کوعوامی خزانے سے خود کو ملنے والی تمام مالیاتی رعائتیں بھی واپس کرنا ہوں گی اور انہیں کئی سال تک کے لئے پبلک سیکٹرمیں ٹینڈر بھرنے سے بھی روک دیا جائے گا۔ نئے ضوابط میں یہ شق بھی رکھی گئی ہے کہ یورپی ملکوں میں غیرقانونی تارکین وطن کو ملازمتیں دینے والے آجرین کو ایسے غیر ملکیوں کی ملک بدری کے اخراجات ادا کرنے کے لئے بھی کہا جاسکتا ہے۔
جرمانے کی علاوہ قید بھی
جو یورپی آجر ادارے آئندہ غیر قانونی طور پر ترک وطن کر کے آنے والے غیر ملکیوں کو اپنے ہاں روزگار دیں گے، انہیں جرمانے کے علاوہ مخصوص حالات میں قید کی سزائیں بھی سنائی جا سکیں گی۔ لیکن عدالتی کارروائی کے بعد سنائی جانے والی ایسی سزاؤں کی مدت کتنی ہو گی، اس کا فیصلہ یونین کی رکن ریاستیں اپنے ہاں انفرادی قانون سازی کے ذریعے کرسکیں گی۔
غیر قانونی تارکین وطن کے روزگار کی یورپی منڈی میں مسلسل استحصال کے خلاف ان ضابطوں کا اطلاق صرف ان کے آجر اداروں پر ہوگا اور رہائش کے باقاعدہ اجازت نامے کے بغیر کام کرنے والے غیر ملکیوں کو مخصوص حالات میں قانونی تحفظ بھی حاصل ہو گا۔ مثلا اگر ایسے کسی غیر ملکی کارکن کے آجر ادارے کے خلاف کسی عدالت میں کوئی مقدمہ زیر سماعت ہو تو قانونی چھان بین کے عمل میں تعاون کی صورت میں عدالتی فیصلہ سنائے جانے تک اس کارکن کو محدود عرصے کے لئے رہائشی اجازت نامہ بھی جاری کیا جاسکے گا۔
اس کے علاوہ متعلقہ کارکن نے کام چاہے غیر قانونی طور پر ہی کیا ہو، یہ اس کا حق ہوگا کہ اسے اس کی قانونی اجرت ہر حال میں ادا کی جائے۔ تاہم یہ جملہ سہولیات ایسے کسی غیر ملکی کو بالآخر اس کی ملک بدری سے نہیں بچا سکیں گی۔
رکن ملکوں کی صوابدید
یورپی کمشن کا کہنا ہے کہ ان ضوابط کے تحت بلیک مارکیٹ میں کام کرنے والے غیرملکیوں سے متعلق کم ازکم معیارات کا تعین کیا گیا ہے۔ یونین کے رکن تمام 27 ملکوں کے لئے لازم ہے کہ وہ 2011 تک ان ضابطوں کو اپنے اپنے قومی قوانین کا حصہ بنائیں اور اگر چاہیں تو ان قوانین میں اور زیادہ سختی کا فیصلہ بھی کرلیں۔
سب سے اہم بات یہ کہ ان ضوابط کا اطلاق یونین سے باہر کے ملکوں سے غیر قانونی طور پر یورپ آنے والے غیر ملکیوں پر ہوگا نہ کہ یونین کے رکن کسی ایک ملک سے آکر کسی دوسری رکن ریاست میں کام کرنے والے ان یورپی کارکنوں پر جو اکثر اپنے میزبان معاشروں میں کم اجرتوں پر کام کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔
یونین کی رکن مقابلتہ امیرریاستوں میں ایسے کارکنوں کی بھی کوئی کمی نہیں جو یونین میں شامل قدرے غریب ملکوں سے آکر بلا اجازت زیادہ تر ہوٹلنگ اور تعمیراتی شعبوں میں مزدوری کرنے لگتے ہیں۔ غیر ملکیوں کے طور پر یورپی یونین میں مالی استحصال ایسے کارکنوں کا بھی ہوتا ہےلیکن خاص طور پر ان کے بارے میں یورپی یونین نے ابھی تک کوئی نئی قانون سازی نہیں کی۔