غیر قانونی تارکین وطن کی پالیسی میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں
25 اکتوبر 2013![](https://static.dw.com/image/17183583_800.webp)
کل جمعرات سے برسلز میں جاری یورپی یونین کے سربراہانِ مملکت و حکومت کے اجلاس میں زیر بحث موضوعات کا دائرہ گرچہ وسیع تھا تاہم مرکزی موضوع جرمن چانسلر کے موبائل فون کی امریکی خفیہ ایجنسی کی طرف سے مبینہ جاسوسی ہی رہا۔ اس دو روزہ سمٹ کے دوسرے روز آج جمعے کو اس اسکینڈل کے علاوہ غیر قانونی تارکین وطن کی یورپی یونین کے رکن ممالک میں آمد کا جاری سلسلہ بھی سنجیدگی سے زیر بحث رہا۔ اس کے علاوہ بینکنگ یونین کی تکمیل اور یورپ میں انٹرنیٹ نظاموں کو مزید مستحکم بنانے جیسے موضوعات پر بھی بات چیت کی گئی۔
برسلز میں آج یورپی یونین کے سربراہی اجلاس کے اختتام تک سب سے زیادہ زیر بحث موضوع یورپ کی پناہ گزینوں سے متعلق پالیسی تھا۔ یونین کے رکن ملک اٹلی کی طرف سے یہ اہم سوال اٹھایا گیا کہ بحیرہء روم کے کنارے واقع ممالک کی طرف غیر قانونی تارکین وطن کے سیلاب سے نمٹنے کے لیے ان ممالک کو اپنے یورپی پارٹنر ملکوں سے کس قسم کی امداد مل سکتی ہے۔ اٹلی نے یورپی یونین کی پناہ گزینوں سے متعلق پالیسی کو از سر نو وضع کرنے پر زور دیا۔ باالفاظ دیگر روم حکومت پناہ کے متلاشی یا غیر قانونی تارکین وطن کی پورپی یونین کے مختلف رکن ممالک میں تقسیم سے متعلق ماضی کی پالیسی میں تبدیلی کا مطالبہ کر رہی تھی، جسے زیادہ تر اراکین نے، جن میں جرمنی بھی شامل ہے، رد کر دیا۔
اس بارے میں آج اجلاس کے اختتام پر ایک بیان میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا کہ اس ضمن میں مختصر مدت کے لیے اقدامات کیے جا سکتے ہیں تاہم پناہ گزینوں سے متعلق بنیادی قوانین میں کسی قسم کی تبدیلی زیر بحث نہیں آئی۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ برس کے لیے یورپی یونین اور افریقی ممالک کے مابین سربراہی اجلاس طے پایا ہے۔
اٹلی کا مطالبہ کچھ عرصہ قبل اطالوی جزیرے لامپے ڈوسا کے قریب پناہ گزینوں کی کشتی غرق ہونے کے سبب 400 سے زائد انسانوں کی ہلاکت کے المناک واقعے کے پیش نظر کیا گیا تھا۔ برسلز میں یہ بحث جاری ہی تھی کہ آج ہی 800 سے زائد تارکینِ وطن کی اٹلی کے ساحلی علاقوں تک پہنچنے کی اطلاع بھی موصول ہوئی۔
اُدھر فرانس اور جرمنی نے امریکی خفیہ سروس کی طرف سے مبینہ جاسوسی کے ضمن میں واشنگٹن انتظاميہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا عندیہ دیا ہے، جن ميں وضاحت طلب کی جائے گی اور اس تنازعے کا حل تلاش کيا جائے گا۔ يہ اعلان يورپی کونسل کے صدر ہیرمان فان رومپوئے نے ایک پريس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کيا۔ رومپوئے نے مزيد کہا کہ جرمنی اور فرانس خفيہ سروسز سے جڑے معاملات ميں امريکا کے ساتھ 'کسی سمجھوتے يا معاہدے‘ کی تلاش ميں ہيں تاکہ مستقبل ميں اس نوعيت کے واقعات سے بچا جا سکے۔
دریں اثناء جرمنی کی سب سے بڑی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی ڈوئچے ٹیلی کوم نے تمام جرمن مواصلاتی کمپنیوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مشترکہ طور پر ایک ایسا نظام تشکیل دیں جس کی مدد سے غیر ملکی انٹیلیجنس سروسز کی جرمن انٹرنیٹ نظام میں دخل اندازی مکمن ہی نہ رہے۔
جرمنی میں ماحول پسندوں کی گرین پارٹی نے امریکی خفیہ ایجنسی این ایس اے کی مبینہ کارروائیوں کے بارے میں برسلز کے اجلاس میں ہونے والی بات چیت کی تفصیلات کے بارے میں وفاقی جرمن پارلمیان کے ایک خصوصی اجلاس کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
برسلز سے ملنے والی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق آج جمعے کو پورپی یونین کے اجلاس کے اختتام پر پریس کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے رکن ملک اسپین کے وزیر اعظم ماریانو راخوئے نے امریکی خفیہ ایجنسی کی طرف سے جاسوسی کے تازہ ترین اسکینڈل پر اپنے رد عمل میں کہا کہ میڈرڈ حکومت نے بھی پیرس اور برلن کی طرح امریکی سفیر کو اس معاملے کی وضاحت کے لیے طلب کر لیا ہے۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ اب تک اس قسم کی اطلاعات نہیں ملیں کہ اسپین بھی این ایس اے کی کارروائیوں کی زد میں آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بارے میں حقائق تفصیل کے ساتھ سامنے آنے چاہییں اور اسی غرض سے امریکی سفیر کو وضاحت کے لیے طلب کیا گیا ہے۔