غیر قانونی تارکین وطن کی گاڑی پر فائرنگ، مہاجر خاتون زخمی
شمشیر حیدر9 مئی 2016
سلوواکیہ کسٹم آفیسرز کی فائرنگ سے ایک تارک وطن خاتون زخمی ہو گئی۔ حکام کا کہنا ہے کہ فائرنگ اس وقت کی گئی جب ایک کار میں سوار غیر قانونی تارکین وطن نے ہنگری کے راستے سلوواکیہ میں داخل ہونے کی کوشش کی۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس واقعے میں زخمی ہونے والی مہاجر خاتون کا تعلق شام سے تھا۔ یہ خاتون اس وقت زخمی ہو گئی تھی جب سلوواکیہ کسٹمز کے اہلکاروں نے ایک ایسی کار پر فائرنگ کر دی جو غیر قانونی تارکین وطن کو لے کر ہنگری کے ذریعے سلوواکیہ کی حدود میں داخل ہوئی۔
مہاجرین اور تارکین وطن کو غیر قانونی طور پر اپنی حدود میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے مختلف یورپی ممالک کے سکیورٹی حکام کی جانب سے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال تو کیا جاتا رہا ہے لیکن شینگن زون میں غیر قانونی تارکین وطن کو روکنے کے لیے ان پر فائرنگ کرنے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
سلوواکیہ کے کسٹم حکام کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ آج نو مئی بروز پیر علی الصبح کسٹم کے اہلکار سلوواکیہ کی حدود میں داخل ہونے والی گاڑیوں کو روک کر تلاشی لے رہے تھے۔ اس دوران سرحد پر چار کاریں پہنچیں۔ حکام نے جب انہیں روکا تو تین کاریں تو رک گئیں لیکن چوتھی کار کے ڈرائیور نے سکیورٹی اہلکاروں کی ہدایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے گاڑی بھگا دی۔
حکام کا کہنا ہے کہ ڈرائیور نے جس رفتار اور انداز سے کار بھگانے کی کوشش کی، اس سے تین سکیورٹی اہلکاروں کی جان خطرے میں تھی۔ پریس ریلیز کے مطابق، ’’اہلکاروں نے پہلے وارننگ دینے کے لیے ہوائی فائرنگ کی تاہم جب گاڑی نہیں رکی تو کار پر فائرنگ کرنا پڑی جس سے ایک خاتون زخمی ہو گئی۔‘‘ پریس ریلیز میں مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
رخمی خاتون اور دیگر مسافروں کو فوری طور پر ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ ہسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ زخمی ہونے والی تارک وطن کا تعلق شام سے ہے اور اس کی عمر چھبیس سال ہے۔ ہسپتال ذرائع کے مطابق زخمی ہونے والی خاتون کی پشت پر گولی لگی۔ خاتون کا آپریشن کر کے گولی نکال دی گئی ہے اور اب اس کی زندگی خطرے سے باہر ہے۔
سلوواکیہ کے کسٹم حکام کا کہنا ہے کہ ان تارکین وطن کو سرحد کی نگرانی پر مامور پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
جرمنی اور دیگر مغربی و شمالی یورپی ممالک کی جانب سفر کرنے والے زیادہ تر تارکین وطن آسٹریا سے گزر کر ان ممالک کی جانب سفر کرتے رہے ہیں۔ تاہم آسٹریا اور ہنگری کی جانب سے سرحدوں کی نگرانی سخت کیے جانے کے بعد خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سلوواکیہ کے ذریعے جرمنی کی جانب سفر کرنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔