غیر قانونی طور پر ملائیشیا جانے والوں کے خلاف بنگلہ دیش کی کارروائیاں
23 دسمبر 2011پولیس کے مطابق اسمگلنگ گروپ مالی حالت بہتر بنانے کے خواہش مند لوگوں کے ساتھ ساتھ روہنگا کمیونٹی کے پناہ گزینوں کو بھی غیر قانونی طور پر ملائیشیا پہنچاتے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ اکتوبر میں مون سون بارشوں کا سلسلہ تھمنے کے بعد سے لکڑی سے بنی درجنوں کشتیاں روہنگا اور بنگلہ دیشی تارکین وطن کو لیے ہوئے تقریباﹰ تین ہزار دو سو کلومیٹر سفر کی کوشش کر چکی ہیں۔
بنگلہ دیش بارڈر گارڈز (بی جی بی) کے کرنل زاہد حسن کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے خلیج بنگال میں ایک کشتی ڈوب گئی تھی، جس پر ایک سو بیس افراد سوار تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ان میں سے بیشتر روہنگا کمیونٹی کے تھے۔
انہوں نے کہا: ’’ماہی گیروں نے ہمیں بتایا کہ تقریباﹰ ایک سو افراد بچ گئے تھے۔ باقی لاپتہ ہیں۔ خیال یہی ہے کہ وہ مر چکے ہیں۔‘‘
کرنل حسن نے بتایا کہ اس وقت سے جنوب مشرقی ساحلی علاقوں سے غیر قانونی تارکین وطن کو لے جانے والی متعدد کشتیوں کو سفر کرنے سے روکا جا چکا ہے۔
ساحلی شہر ٹیکناف کے پولیس سربراہ محبوب الحق کا کہنا ہے: ’’اسمگلنگ گروہ کشتی پر ملائیشیا لے جانے کے لیے بیس ہزار ٹکہ (تین سو ڈالر) لیتے ہیں، جو بیرون ممالک ملازمتوں کے لیے بھرتی کرنے والی ایجنسیوں کی جانب سے لی جانے والی مائیگریشن فیس سے پندرہ گنا کم ہے۔‘‘
میانمار کے روہنگا لوگوں کو اقوام متحدہ ایک ایسی کمیونٹی قرار دیتی ہے، جسے دنیا میں سب سے زیادہ مظالم کا سامنا ہے۔ انہیں میانمار کے شہری تسلیم نہیں کیا جاتا، جس کی وجہ سے وہ سرحد پار کر کے مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش میں داخل ہوتے رہتے ہیں۔
بنگلہ دیش ان میں سے اٹھائیس ہزار کو رجسٹرڈ پناہ گزین قرار دیتا ہے جو سرحد کے قریب اقوام متحدہ کے زیرِ نگرانی قائم دو کیمپوں میں رہتے ہیں۔ حکومتی اندازوں کے مطابق ’غیر رجسٹرڈ شدہ’ پناہ گزینوں کی تعداد دو سے تین لاکھ کے درمیان ہے۔
رجسٹرڈ پناہ گزینوں میں سے ایک مجیب الرحمان نے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا کہ روہنگا کمیونٹی کے لوگ انتہائی احساسِ محرومی کے باعث ملائیشیا تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اِس مقصد کے لیے اُنہیں کشیتوں کے ذریعے سفر ہی ٹھیک لگتا ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل / اے ایف پی
ادارت: امجد علی