1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
فلماٹلی

غیرقانونی مہاجرت کا ہولناک سفر، اکیڈمی ایوارڈز کی تقریب میں

16 فروری 2024

آسکر ایوارڈز کے لیے منتخب کی گئی ماتایو گاروینے کی فلم ’ایئو کاپیٹانو‘ میں انسانوں کے اسمگلرز کی لالچ تو شامل ہے ہی لیکن ساتھ ہی اچھے مستقبل کی خاطر یورپ جانے والے افریقی باشندوں کے خوابوں کی عکاسی بھی کی گئی ہے۔

Frankreich-UK Migration | Vorfälle beim Überqueren des Ärmelkanals
تصویر: Gareth Fuller/empics/picture alliance

اطالوی ڈائریکٹر ماتایو گاروینے کی فلم ایئو کاپیٹانو (Io Capitano) 96 ویں اکیڈمی ایوارڈز میں بیسٹ انٹرنیشنل فیچر فلم کی کیٹیگری میں منتخب کی گئی ہے۔

اس فلم کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی کہانی کی تیاری میں ماماڈو کوآسی نامی ایک ایسے شخص کے تجربات شامل کیے گئے ہیں، جو خود غیر قانونی مہاجرت کا سہارا لیتے ہوئے یورپ پہنچے تھے۔

ماماڈو کوآسی سن دو ہزار آٹھ میں بحیرہ روم کے خطرناک پانیوں کو عبور کرتے اٹلی پہنچے تھے۔ 

آئیوری کوسٹ سے سفر شروع کرنے والے کواسی نے ماتایو گاروینے کو اس فلم کی کہانی تخلیق کرنے میں مدد دی۔ اس فلم کی کہانی دو ٹین ایجرز کے گرد گھومتی ہے۔

یہ دونوں سینیگال کے راستے نائجر کا پرخطر صحرا کراس کرتے ہوئے لیبیا پہنچتے ہیں اور وہاں سے یہ ایک کشتی میں سوار ہو کر بحیرہ روم سے ہوتے ہوئے اٹلی۔

اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ انسانوں کے اسمگلرز کس طرح ایک ٹین ایجر کو اُس کشتی کا کیپٹن بنا دیتے ہیں، جس میں غیر قانونی مہاجرین یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

انسانوں کے اسمگلرز کو علم ہوتا ہے کہ ٹین ایجر اگر پکڑا بھی گیا تو اٹلی میں اسے سزا نہیں دی جائے گی، اس لیے ایک لڑکے کو کشتی کا کپتان بنایا جاتا ہے۔

اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ اس خطرناک سفر میں کوئی نہیں مرتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماماڈو کوآسی کی کشتی میں کئی لوگ مرتے ہیں۔

یونان کشتی حادثے میں زندہ بچ جانے والے ایک پاکستانی کی کہانی

02:34

This browser does not support the video element.

ماماڈو کوآسی نے اس فلم کی تخلیق کی خاطر ماتایو گاروینے کو ایسے ہولناک حقائق بتائے، جنہیں دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ افریقہ سے یورپ پہینچے کا یہ سفر کس قدر خوفناک اور خطرناک ہوتا ہے۔

ماتایو گاروینے نے بتایا کہ کوآسی نے انہیں ایسے لرزہ خیز واقعات بھی بتائے، جنہیں وہ اس فلم میں شامل نہ کر سکے۔ جس کا مقصد اس فلم کو وسیع تر حلقوں میں مقبول بنانا تھا۔

کوآسی نے بتایا تھا کہ اس کے سفر میں انسانوں کے اسمگلرز نے خواتین کو متعدد مرتبہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا، لوگوں کو مارا پیٹا اور ان کے اعضاء جلا کر تشدد کیا گیا۔

اس فلم کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ مہاجرت کے اس غیر قانونی سفر کی حقیقت کیا ہے اور اس طریقے سے یورپ پہنچنے والے لوگ ایک مستقل صدمے سے دوچار رہ سکتے ہیں۔

چالیس سالہ کوآسی اطالوی شہر کاستل والتنرو میں مقیم ہیں۔ وہ اٹلی آنے والے غیر قانونی مہاجرین کو پیپر ورک میں مدد کرتے ہیں اور ان کی دیگر ضروریات کو یقینی بنانے کی خاطر سہولت کاری کرتے ہیں۔

کوآسی کو امید ہے کہ یہ فلم عالمی سطح پر بننے والی مہاجرین کی پالیسیوں پر اثر انداز ہو سکے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر لوگ یہی جانتے ہیں کہ بحیرہ روم میں ہزاروں لوگ ڈوب کر مر جاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے کہیں زیادہ لوگ اس سمندر تک پہنچنے کی کوشش میں صحراؤں میں ہی دفن ہو جاتے ہیں۔

ع ب/ ش ر (خبر رساں ادارے)

انسانوں کو غیر قانونی طور پر یورپ پہنچانے کا کاروبار کتنا بڑا ہے

02:32

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں