غیر قانونی مہاجرین کے خلاف کریک ڈاون تیز تر کر دیا گیا
23 نومبر 2023حکام نے بتایا ہے کہ جعل سازی میں ملوث سرکاری اہلکاروں کے خلاف بھی بڑے پیمانے پر کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔ قواعد وضوابط کی خلاف ورزی پر کئی اہلکاروں کو محکمانہ تحقیقات کے بعد ملازمت سے برطرفی سمیت دیگر سزائیں دی گئی ہیں۔
اسلام آباد میں مقیم وزارت داخلہ کے ایک سینئر اہلکار طفیل احمد کہتے ہیں کہ جعل سازی کی بنیاد پر پاکستانی شہریت حاصل کرنے والے افراد کی شناخت کے لیے ایک مخصوص اور جامع نظام کے تحت کام کیا جا رہا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے طفیل احمد نے مزید کہا، ''غیرملکی تارکین وطن کے انخلاء کا پہلا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے۔ اب دوسرے مرحلے میں مزید سختی کے ساتھ اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ یہاں جو بھی لوگ غیرقانونی طور پر مقیم ہیں، انہیں ہر صورت واپس اپنے ملک جانا ہوگا۔ یہ پاکستان کی داخلی سلامتی کا معاملہ ہے اور ریاست اس قومی مفاد کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔‘‘
افغان مہاجرین کی زبردستی بے دخلی ’ناقابل قبول‘ ہے، طالبان
اقوام متحدہ کی تارکین وطن سے متعلق پاکستانی منصوبے کی مخالفت
نیشنل ڈیٹا بیس تک رسائی کے لیے دو مراحل میں تصدیق اور داخلی نگرانی کا نظام
طفیل احمد کا کہنا تھا کہ نیشنل ڈیٹا بیس میں چھان بین کے دوران مشتبہ شہریوں کے والدین اور خونی رشتہ داروں کی بائیو میٹرک تصدیق بھی کرائی جا رہی ہے تاکہ جعل سازی پر قابو پایا جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا، ''سائبر سیکیورٹی کا معاملہ ہمیشہ بہت حساس رہا ہے۔ غیرقانونی قومی شناختی کارڈز اور دیگر دستاویزات کے اجراء کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم ( جے ائی ٹی ) بھی قائم کی گئی ہے۔ جے آئی ٹی مختلف پہلوؤں سے اس صورتحال کا جائزہ لے رہی ہے۔ نیشنل ڈیٹا بیس تک رسائی کے لیے دو مراحل میں تصدیق اور داخلی نگرانی کا ایک بہتر نظام تشکیل دیا جا رہا ہے، جو لوگ بھی اس غیرقانونی عمل میں ملوث ہوں گے، ان کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جا ئے گی۔‘‘
جنوری 2024 کے آخر تک 10 لاکھ غیر قانونی مہاجرین کی ملک بدری کا ہدف
بلوچستان کے وزیر اطلاعات جان اچکزئی کہتے ہیں رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے کی مقررہ معیاد ختم ہونے کے بعد سے لے کر اب تک بلوچستان سے ایک لاکھ 20 ہزار غیرقانونی تارکین وطن واپس اپنے ملک جا چکے ہیں۔
کوئٹہ میں نیوز بریفنگ کے دوران انہوں نے بتایا، ''غیرقانونی تارکین وطن کے پاس اپنے ممالک واپسی کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے، جو لوگ سفری دستاویزات کے بغیر یہاں آئے ہیں، اب انہیں واپس اپنے ممالک لوٹنا ہوگا۔ کوئٹہ سمیت صوبے کے مختلف علاقوں سے مزید 2 ہزار غیر قانونی تارکین وطن کو حراست میں لیا گیا ہے۔ گرفتار افراد کو جلاوطن افراد کے لیے بنائے گئے مراکز میں منتقل کیا گیا ہے، جہاں سے انہیں اپنے ممالک واپس بھیجا جائے گا۔‘‘
24 خودکش بم دھماکوں میں سے 14 افغان شہریوں نے کیے، پاکستان
پاکستان سے افغان شہریوں کی جبری واپسی، ضرورت یا مصلحت؟
نگراں وزیراطلاعات کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو غیرملکی تارکین وطن کے خلاف بھرپور کارروائی کے احکامات جاری کیے گئے ہیں اور سیکیورٹی اہلکار شک کی بنیاد پر ہرشہری کا قومی شناختی کارڈ چیک کرسکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، ''جنوری سن 2024 کے آخر تک 10 لاکھ غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کی ملک واپسی کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کو جلد از جلد مکمل کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے والے مہاجرین کو حکومت نے ہر ممکن معاونت فراہم کی۔ مہاجرین کے ساتھ غیرانسانی سلوک کے حوالے سے سامنے آنے والی شکایات پر بھی بھرپور کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے۔‘‘
پاکستان میں رجسٹرڈ مہاجرین بھی حکومتی کارروائیوں کی زد میں
پاکستان پولیس اور دیگر اداروں پر ایسے افغان شہریوں کے خلاف بھی مبینہ کارروائی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں جو کہ قانونی طور پر ملک میں رہائش پذیر بتائے گئے ہیں۔
کوئٹہ میں مقیم ایک افغان تاجر حاجی شوکت ادوزئی کہتے ہیں کہ مہاجرین کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کے دوران انسانی حقوق کی پامالیاں معمول بنتی جا رہی ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''حکومتی دعوے ایک طرف لیکن حقائق اس صورتحال سے یکسر مختلف ہیں۔ یہاں سے ایسے ہزاروں افراد بھی زبردستی ملک بدر کیے گئے ہیں جن کے پاس باقاعدہ پی او آر کارڈز تھے۔ افغان شہریوں کو یہاں بہت تنگ کیا جا رہا ہے۔ پولیس اہلکار رجسٹرڈ مہاجرین کو بھی گرفتار کر رہے ہیں اور انہیں چھان بین کے بغیر ڈی پورٹیشن مراکز منتقل کیا جا رہا ہے۔ کئی لوگ ایسے بھی ہیں جن کا ہفتوں سے اپنے خاندانوں سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔‘‘
اس افغان تاجر کا کہنا تھا کہ رجسٹرڈ مہاجرین انصاف کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں مگر انہیں کوئی انصاف نہیں مل رہا۔
ادھر دوسری جانب پاک افغان سرحدی شہر چمن میں حالیہ حکومتی اقدمات کے خلاف احتجاجی دھرنا تاحال جاری ہے۔ دھرنے میں شریک ہزاروں لوگوں نے حکومت سے افغانستان آمدورفت کے لیے پاسپورٹ کی شرط ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
دھرنا مظاہرین کے ساتھ ہونے والے مذاکرات تاحال بے نتیجہ رہے ہیں ۔ آج بروز جمعرات دھرنا مظاہرین نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات منظور نہ کیے گئے تو ملک کی تمام قومی شاہراہیں احتجاج بلاک کردی جائیں گی۔
غیر قانونی مہاجرین کے خلاف فارن ایکٹ 1946 کے تحت کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔ غیرقانونی طور پر مقیم افراد کی شناخت کے لیے بلوچستان میں سرچ آپریشن بھی جاری ہے اور نادرا کے ریکارڈ سے مشکوک افراد کا ڈیٹا چیک کیا جا رہا ہے۔