1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’غیر معینہ مدت تک افغانستان میں رہنے کے لیے تیار رہیں‘

25 مارچ 2018

جرمن وزیر دفاع نے افغانستان میں تعینات جرمن فوجیوں سے کہا ہے کہ وہ وہاں غیر معینہ مدت تک موجود رہنے کے لیے تیار رہیں۔ اُرزولا فان ڈیئر لائن کے مطابق افغانستان ابھی اپنی سکیورٹی کی ذمہ داریاں نبھانے کی منزل سے بہت دور ہے۔

Afghanistan Verteidigungsministerin von der Leyen
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler

جرمن وزیر دفاع ارزولا  فان ڈیئر لائن نے تسلیم کیا ہے کہ افغانستان اپنی سلامتی کی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے ضروری تیاری سے ابھی بہت دور ہے۔ فان ڈیئر لائن نے شمالی افغانستان میں مزار شریف کے دورے کے موقع پر وہاں تعینات جرمن فوجیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’یہ کسی طے شدہ وقت کی بات نہیں ہے جس پر سختی سے عمل کیا جا سکے۔‘‘

مزار شریف میں جرمن فوجیوں کے فوجی اڈے پر اُرزولا فان ڈیئر لائن کا مزید کہنا تھا کہ جرمن فوجیوں کی تعیناتی کی مدت افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جاری کارروائیوں کی کامیابیوں پر منحصر ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہمیں صبر کی اور طاقت کی ضرورت ہے۔‘‘

ابھی جمعرات 22 مارچ کو ہی جرمن پارلیمان نے افغانستان میں جرمن فوجی مشن کی مدت میں ایک سال کی توسیع کی منظوری دی تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ پارلیمان نے افغانستان میں تعینات جرمن فوجیوں کی تعداد 980 سے بڑھا کر 1300 کرنے کی منظوری بھی دی تھی۔ خیال رہے کہ یہ 16واں سال ہے کہ جرمن فوجی جنگ زدہ ملک افغانستان میں تعینات ہیں۔

جرمنی کی وزارت دفاع نے افغانستان میں جرمن فوجیوں کی تعداد بڑھانے کے فیصلے کا دفاع کیا تھا۔ جرمن فوجی موسم سرما میں افغان فوج کے ساتھ طے شدہ مشترکہ آپریشنز میں سے نصف سے بھی کم میں شریک ہو پائے تھے اور اسی باعث جرمن فوج تنقید کی زد میں بھی رہی۔ فان ڈیئر لائن نے ان مسائل کی وجہ وہاں موجود سکیورٹی اہلکاروں کی کمی کو قرار دیتے ہوئے عزم ظاہر کیا کہ اس مسئلے کو حل کر لیا جائے گا۔

جرمن وزیر دفاع ارزولا  فان ڈیئر لائن نے تسلیم کیا ہے کہ افغانستان اپنی سلامتی کی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے ضروری تیاری سے ابھی بہت دور ہے۔تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler

افغان سکیورٹی فورسز کے پاس اس وقت  ملک کے 60 فیصد رقبے کا کنٹرول ہے۔ جرمن وزیر دفاع ارزولا فان ڈیئر لائن کے مطابق، ’’یہ اچھی بات ہے، لیکن طویل عرصے کے لیے یہ کافی نہیں ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں