عراقی پارلیمان نے حکومت سے مطالبہ کر دیا ہے کہ امریکی افواج کو ملک سے نکل جانے کا حکم دیا جائے۔ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی بغداد میں ہلاکت کے بعد ایران کے ساتھ ساتھ عراق میں بھی 'امریکی جارحیت‘ کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔
اشتہار
اتوار کے دن عراقی پارلیمان کا ایک خصوصی سیشن منعقد کیا گیا، جس میں ممبران نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ امریکی افواج کے مکمل انخلاء کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ اس وقت عراق میں تقریبا باون سو امریکی فوجی تعینات ہیں، جو تقریبا پانچ برس قبل عراقی حکومت کی درخواست پر داعش کے خلاف کارروائی کے لیے عراق میں تعینات کیے گئے تھے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق پارلیمان میں منظور کی گئی اس قرارداد میں ممبران نے زور دیا کہ عراق میں تعینات تمام تر امریکی فوجیوں کو ملک میں مزید قیام کی اجازت نہیں ہونا چاہیے۔ عراقی پارلیمان میں یہ قرارداد ایک ایسے وقت میں منظور کی گئی ہے، جب خطے میں کشیدگی میں بدستور اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
عراقی حکومت نے سن دو ہزار چودہ میں امریکا سے درخواست کی تھی کہ دہشت گرد تنظیم داعش کے خلاف کارروائی کے لیے بغداد حکومت کی مدد کی جائے، جس کے بعد امریکی افواج عراق روانہ کی گئی تھیں۔ تاہم اس قرارداد میں زور دیا گیا ہے کہ حکومت امریکا کے ساتھ کیے گئے اس معاہدے کو ختم کر دے۔
ايران امريکا کشيدگی کی حاليہ تاريخ
ايران اور امريکا ويسے تو روايتی و تاريخی لحاظ سے بھی حريف ممالک ہيں تاہم کسی اعلی ايرانی فوجی جنرل کی براہ راست امريکی حملے ميں ہلاکت سے خطے ميں کشيدگی بڑھ گئی ہے۔ ايران اور امريکا کے مابين کشيدگی کی مختصر تاريخ۔
تصویر: picture-alliance/AP/Iraqi Prime Minister Press Office
جوہری ڈيل سے امريکا کی دستبرداری
امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آٹھ مئی سن 2018 کے روز ايران کے ساتھ جوہری ڈيل سے يکطرفہ طور پر دست برداری کا اعلان کيا۔ ايران کے متنازعہ جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے مقصد سے يہ ڈيل چھ عالمی طاقتوں اور تہران حکومت کے مابين سن 2015 ميں طے پائی تھی۔ ايران نے اس اقدام کو ’ناقابل قبول‘ قرار ديا اور ڈيل ميں شامل ديگر پانچ ممالک جرمنی، فرانس، برطانيہ، روس اور چين کے ساتھ بات چيت جاری رکھنے کا کہا۔
تصویر: picture-alliance/abaca/D. Olivier
سخت امريکی مطالبات اور ايران کا رد عمل
اکيس مئی کو امريکا نے ايران سے وسيع تر تبديليوں کا مطالبہ کيا۔ وزير خارجہ مائيک پومپيو نے بارہ مطالبات کی ايک فہرست سامنے رکھی، جن ميں شام ميں فوجی مداخلت ختم کرنے، جوہری پروگرام ترک کرنے وغيرہ جيسے مطالبے کيے گئے تھے اور انہيں پورا نہ کرنے کی صورت ميں اقتصادی پابنديوں کی دھمکی بھی دی گئی تھی۔ ايران نے يہ تمام مطالبات مسترد کر ديے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Loeb
ايران پر عائد اقتصادی پابنديوں کی بحالی
جوہری ڈيل کی شرائط کے تحت رعايت کے طور پر اٹھائی گئی چند امريکی پابندياں سات اگست سن 2018 کو بحال کر دی گئيں۔ ابتدائی مرحلے ميں ايران کے ايوی ايشن، قالين سازی، سونے اور پستوں کی برآمدات سے متعلق شعبون کو ہدف بنايا گيا۔ پھر پانچ نومبر کو تازہ پابندياں عائد کی گئيں، جن ميں انتہائی اہم بينکاری اور خام تيل کی تجارت کے سيکٹرز پر پابندياں عائد کی گئيں۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/A. Halabisaz
پاسداران انقلاب ’دہشت گرد تنظيم‘ قرار
آٹھ اپريل سن 2019 کے دن امريکی صدر ٹرمپ نے ايرانی پاسداران انقلاب کو ايک ’غير ملکی دہشت گرد تنظيم‘ قرار دے ديا۔ اس فيصلے کے تحت ايران فوج کا يہ طاقتور حصہ کئی اقتصادی اور سفری پابنديوں کی زد ميں آ گيا۔ جواباً ايران نے امريکا کو ’دہشت گردی کی معاونت کرنے والی رياست‘ اور مشرق وسطی ميں تعينات امريکی افواج کو ’دہشت گرد گروپ‘ قرار دے ديا۔
تصویر: AFP/Iranian Presidency
امريکی بحری بيڑے کی مشرق وسطیٰ تعيناتی
پانچ مئی سن 2019 کو اس وقت کے امريکی مشير برائے قومی سلامتی جان بولٹن نے اعلان کيا کہ مشرق وسطیٰ کے خطے ميں پريشان کن پيش رفت کے سبب ايئر کرافٹ اسٹرائيک گروپ يا بحری بيڑہ اور لڑاکا طيارے خطے کی طرف روانہ کيے جا رہے ہيں۔ بولٹن نے اس وقت بيان ديا تھا کہ امريکا جنگ نہيں چاہتا ليکن اپنے مفادات کے تحفظ کو يقينی ضرور بنايا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/US Navy
ايران ميں يورينيم کی افزودگی بحال
امريکا کی جوہری ڈيل سے يکطرفہ دستبرداری کے عين ايک برس بعد آٹھ مئی سن 2019 کو تہران حکومت نے احتجاجاً يورينيم کی افزودگی کا عمل بحال کرنے کا اعلان کيا۔ يہ عمل ڈيل کی شرائط ميں ممنوع قرار ديا گيا تھا۔ اسی دن امريکا نے ايران پر تازہ پابنديوں کا اعلان بھی کيا، جن ميں اسٹيل اور کان کنی کے سيکٹرز کو نشانہ بنايا گيا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Salemi,
آبنائے ہرمز ميں آئل ٹينکر سبوثاژ کی زد ميں
بارہ مئی کو الفجيرہ کے قريب سمندر ميں چار کمرشل بحری جہازوں پر ’مشکوک پيش رفت اور سبوتاژ‘ رپورٹ کی گئی۔ يہ دعویٰ متحدہ عرب امارات نے کيا اور مزيد کہا کہ واقعے ميں دو سعودی آئل ٹينکر، ناروے کا ايک بحری جہاز اور ايک اماراتی جہاز متاثر ہوئے۔ کئی حلقوں ميں ايران کی طرف انگلياں اٹھائی گئيں ليکن ايران نے اس پيش رفت کو خطرناک قرار ديا اور لاتعلقی کا اظہار کيا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/ISNA
حوثی باغيوں کا سعودی عرب ميں ڈرون حملہ
يمن ميں متحرک ايرانی حمايت يافتہ حوثی باغيوں نے چودہ مئی کو سعودی عرب ميں ڈرون حملے کرتے ہوئے تيل کی ايک اہم پائپ لائن کو نشانہ بنايا اور وہ بند کر دی گئی۔ دو دن بعد رياض حکومت نے اس کارروائی کا الزام ايران پر عائد کيا اور امريکا نے بھی يہی موقف اختيار کيا۔ ايران نے ان الزامات کو مسترد کيا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Bildfunk/AP/A. Nabil
ثالثی کی کوششيں اور تازہ حملے
ايران اور امريکا کے مابين ثالثی کے مقصد سے جون ميں جاپانی وزير اعظم شينزو آبے نے ايران کا دورہ کيا۔ وہ بارہ جون کو تہران پہنچے اور اگلے ہی دن خليج عمان ميں ايک جاپانی اور ايک نارویجيئن ٹينکر حملے کے زد ميں آئے۔ ايران نے واقعات کو حادثات قرار دے کر چواليس افراد کے عملے کو بچانے کا کہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Triballeu
مشرق وسطیٰ ميں اضافی امريکی فوج تعينات
کچھ ہی دن بعد سترہ جون کو امريکی محکمہ دفاع نے مشرق وسطی ميں ايک ہزار اضافی فوجيوں کی تعيناتی کی منظوری دے دی۔ اسی دن ايران نے اعلان کيا کہ وہ جوہری ڈيل ميں طے شدہ افزودہ يورينيم کی حد پار کرنے سے صرف دس دن دور ہے۔ تہران حکومت نے يہ بھی کہا کہ اگر ڈيل ميں شريک يورپی ممالک ايران کو اقتصادی پابنديوں کے اثرات سے بچانے کے ليے کوئی راہ نکال ليتے ہيں، تو ايران اپنا فيصلہ واپس لے سکتا ہے۔
تصویر: Imago/ZUMA Press/USMC/Cpl. D. Morgan
ايران نے امريکی ڈرون مار گرايا
بيس جون کو ايران نے ايک امريکی فوجی ڈرون مار گرايا۔ امريکا اور ايران دونوں کا ايک واقعے پر مختلف موقف سامنے آيا۔ واشنگٹن نے کہا کہ ڈرون بين الاقوامی پانيوں کی حدود ميں تھا جبکہ تہران کا دعویٰ تھا کہ ڈرون کو ايرانی فضائی حدود ميں نشانہ بنايا گيا۔
تصویر: picture-alliance/US Air Force/Zumapress
ايران پر حملہ روک دينے کا امريکی دعویٰ
اکيس جون کو امريکی صدر نے اعلان کيا کہ انہوں نے ايک روز قبل ايران پر فوجی حملہ رکوا ديا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ڈرون مار گرائے جانے کے رد عمل ميں کيے جانے والے حملے کو شروعات سے صرف دس منٹ پہلے روکا گيا۔ ٹرمپ نے دعویٰ کيا کہ اس حملے ميں ڈيڑھ سو افراد کی ہلاکت واقع ہو سکتی تھی۔ اس موقع پر صدر ٹرمپ نے ايران کے ساتھ بات چيت کا عنديہ بھی ديا۔
پچيس جون سن 2019 کے دن امريکا نے ايران پر تازہ پابندياں عائد کيں، جن ميں اس بار سپريم ليڈر آيت اللہ خامنہ ای اور چند ديگر اعلیٰ اہلکاروں کو نشانہ بنايا گيا۔ جواب ميں ايرانی وزير خارجہ نے کہا کہ ٹرمپ جنگ کے بھوکے ہيں اور سفارتکاری کے ذريعے معاملات حل کرنے ميں کوئی دلچسپی نہيں رکھتے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
جديد ترين امريکی لڑاکا طيارے مشرق وسطیٰ ميں
انتيس جون کو امريکا نے جديد ترين لڑاکا طيارے ايف بائيس مشرق وسطی ميں تعينات کر ديے۔ اس فيصلے کا مقصد خطے ميں امريکی مفادات و تنصيبات کا تحفظ بتايا گيا۔
تصویر: picture-alliance/EPA/TSGT
افزودہ يورينيم کی حد عبور
يکم جولائی کو ايران نے اعلان کيا کہ اس نے افزودہ يورينيم کی جوہری ڈيل ميں مقررہ حد عبور کر لی ہے۔ جوہری امور پر نگاہ رکھنے والے اقوام متحدہ کے ادارے نے اس پيش رفت کی تصديق بھی کر دی۔
تصویر: AFP/J. Klamar
ايرانی آئل ٹينکر کو جبرالٹر ميں روک ليا گيا
چار جولائی کو برطانوی روئل ميرينز نے جبرالٹر ميں ايک ايرانی آئل ٹينکر کو روک ليا۔ الزام يہ لگايا گيا کہ ٹينکر کے ذريعے خام تيل شام تک پہنچايا جا رہا ہے، جو کہ شام پر عائد يورپی يونين کی پابنديوں کی خلاف ورزی تھی۔ پھر بارہ جولائی کو اس ٹينکر کے ايرانی کپتان اور چيف آفيسر کو جبرالٹر ميں حراست ميں لے ليا گيا۔ ايرانی ٹينکر کو پندرہ اگست کو چھوڑ ديا گيا تھا۔
تصویر: Reuters/J. Nazca
برطانوی آئل ٹينکر کو آبنائے ہرمز ميں روک ليا گيا
انيس جولائی کو ايران نے آبنائے ہرمز ميں ايک برطانوی آئل ٹينکر کو تحويل ميں لے ليا۔ ايرانی حکام نے برطانوی ٹينکر پر بين الاقوامی بحری قوانين کی خلاف ورزی کا الزام لگايا۔ کچھ ہی دن بعد لندن حکومت نے اعلان کيا کہ آبنائے ہرمز سے گزرنے والے تمام برطانوی ٹينکروں کے ساتھ جنگی بحری جہاز بھی سفر کريں گے۔
اگست کے اواخر ميں ايران نے ايک نيا ميزائل دفاعی نظام متعارف کرايا۔ اگست ہی کے ماہ ميں ايرانی وزير خارجہ محمد جواد ظريف نے فرانسيسی صدر ايمانوئل ماکروں سے بھی ملاقات کی۔ اس وقت فرانس ايران اور يورپی طاقتوں کے مابين ثالثی اور جوہری ڈيل کو بچانے کے ليے کافی سرگرم تھا۔
امريکی دباو ميں اضافہ
ستمبر کے اوائل ميں امريکا نے ايرانی سول اسپيس ايجنسی پر بھی پابندياں لگا ديں۔ پھر مزيد پابنديوں ميں ايرانی شپنگ سيکٹر کو ہدف بنايا گيا۔ اسی وقت امريکی صدر نے فرانس کی تجاويز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ ايران کو کوئی رعايت نہيں ديں گے۔
تصویر: AP
جان بولٹن کو عہدے سے ہٹا ديا گيا
دس ستمبر کو صدر ٹرمپ نے اعلان کيا کہ وہ اختلافات کی بنياد پر قومی سلامتی کے مشير جان بولٹن کو فارغ کر رہے ہيں۔ ايسی رپورٹيں بھی گردش کرتی رہيں کہ در اصل اختلافات ايران کو پابنديوں سے معمولی سی رعايت دينے کے معاملے پر سامنے آئے۔ بولٹن کو انتہائی ايران مخالف اہلکار کے طور پر ديکھا جاتا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Smialowski
سعودی ارامکو پر حوثی باغيوں کا حملہ
چودہ ستمبر کو حوثی باغيوں نے اس ڈرون حملے کی ذمہ داری قبول کر لی، جس ميں سعودی ارامکو کی تيل تنصيبات کو نشانہ بنايا گيا تھا۔ اس حملے کی وجہ سے عالمی سطح پر تيل کی سپلائی متاثر ہوئی تھی۔ پومپيو نے اس کا الزام بھی ايران پر عائد کیا تھا۔ تاہم ايران نے اس الزام کو بھی رد کر ديا۔
تصویر: AFP/F. Nureldine
ايران ميں داخلی سطح پر بد امنی
ايران ميں نومبر کے وسط ميں ايندھن کی قيمتوں ميں اضافے پر شروع ہونے والا احتجاج باقاعدہ حکومت مخالف تحريک کی شکل اختيار کر گيا۔ بعد ازاں بد امنی اور سکيورٹی فورسز کی مظاہرين کو منتشر کرنے کے ليے کارروائی ميں حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیم ايمنسٹی انٹرنيشنل کے مطابق تين سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ايران نے بيرونی قوتوں پر اس بد امنی کا الزام لگايا۔
تصویر: AFP
قيديوں کا تبادلہ
دسمبر کی سات تاريخ کو ايران اور امريکا نے قيديوں کا تبادلہ کيا۔ سوئس حکومت کی ثالثی کے نتيجے ميں چار سال سے ايران ميں قيد ايک چينی نژاد امريکی شہری کو رہا کيا گيا اور اس کے بدلے امريکا نے مسعود سليمانی نامی ايرانی سائنسدان کو چھوڑا۔
ستائيس دسمبر کو کرکوک، عراق ميں ايک راکٹ حملے ميں ايک امريکی کنٹريکٹر مارا گيا۔ اسی حملے ميں متعدد امريکی فوجی زخمی بھی ہوئے۔ دو دن بعد امريکا نے عراق اور شام ميں کئی مقامات پر اہداف کو نشانہ بنايا۔ عراقی ذرائع کے مطابق ان حملوں ميں پچيس افراد ہلاک ہوئے، جن ميں اکثريت ايران نواز مليشيا کے ارکان کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman
بغداد ميں امريکی سفارت خانے پر حملہ
اکتيس دسمبر کو بغداد ميں مشتعل ہجوم نے امريکی سفارت خانے پر دھاوا بول ديا۔ اس ميں ايران نواز نيم فوجی گروپوں کے حامی ملوث تھے تاہم ٹرمپ نے اس کا الزام براہ راست ايران پر لگايا۔ مظاہرين نے امريکا کی مخالفت ميں احتجاج ايک دن تک جاری رکھا اور پھر يکم جنوری کو سفارت خانے کا محاصرہ ختم کيا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/K. Mohammed
قدس فورس کے سربراہ کی ہلاکت
تين جنوری کی صبح بغداد کے ہوائی اڈے کے قريب امريکا نے ايرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سليمانی کو ايک ڈرون حملے ميں نشانہ بنايا۔ اس حملے ميں ايران نواز عراقی مليشيا کے سينئر ارکان بھی مارے گئے۔ ايران نے اس حملے کا صحيح جواب اور انتقام لينے کی دھمکی دی ہے، جس سبب ان دنوں خطے ميں شديد کشيدگی پائی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/Iraqi Prime Minister Press Office
26 تصاویر1 | 26
اس قرارداد کے متن کے مطابق بغداد حکومت کو یہ امر یقینی بنانا چاہیے کہ غیر ملکی افواج عراقی سرزمین، ہوائی حدود اور پانی کو کسی بھی مقصد کے لیے استعمال نہ کریں۔ اگرچہ اس قرارداد پر عمل کرنا لازمی نہیں ہے تاہم عراقی وزیر اعظم عادل عبدالمہدی نے ممبران پارلیمان سے کہا تھا کہ وہ اس قرارداد کو پیش کریں۔ عراقی پارلیمان میں زیادہ تر ممبران کا تعلق شعیہ کمیونٹی سے ہے، جو ایران کے ساتھ ہمدردری رکھتے ہیں۔
عراقی پارلیمان میں یہ قرارداد ملکی دارالحکومت بغداد کے ہوائی اڈے کے نزدیک اعلیٰ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے امریکی حملے میں ہلاک ہونے کے دو دن بعد منظور کی گئی ہے۔ اس حملے میں عراقی ملیشیا کتائب حزب اللہ کے آٹھ اہم اہلکار بھی ہلاک ہوئے، جن میں اس ملیشیا کے سربراہ ابو مہدی المھندس اور ان کے نائب بھی شامل تھے۔
قبل ازیں ایک کارروائی کرتے ہوئے امریکی فورسز نے اسی ملیشیا کے پچیس اہلکاروں کو ہلاک کیا تھا۔ ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ عراقی شہر کرکوک میں ایک امریکی کنٹریکٹر کو ہلاک جبکہ دیگر کو زخمی کرنے کے مرتکب ہوئے تھے۔ ایران نواز 'کتائب حزب اللہ‘ کی اس مبینہ کارروائی میں متعدد عراقی فوجی بھی زخمی ہو گئے تھے۔
ناقدین کے مطابق عراق میں غیر ملکی افواج کی موجودگی کے بارے میں گزشتہ کچھ عرصے سے بے چینی پائی جا رہی تھی لیکن حالیہ پیشرفت کے باعث حکومتی سطح پر اس حوالے سے تحفظات شدید ہوئے اور اب پارلیمان میں ایک قرارداد بھی منظور کر لی گئی۔
قبل ازیں عراقی حکام نے ان تازہ واقعات پر عراق میں امریکی سفیر کو طلب کر کے احتجاج بھی ریکارڈ کرایا۔ عراقی وزارت خارجہ نے ان امریکی حملوں کو ملکی سالمیت اور خودمختاری کی کھلی خلاف وزری دیا اور کہا کہ یہ کارروائیاں دراصل بغداد اور غیر ملکی فوجی اتحاد کے مابین معاہدے کی خلاف ورزی ہیں۔