ہالینڈ میں ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ ملک میں انگریزی زبان کا پھیلاؤ تعلیم کے لیے ہالینڈ کا رخ کرنے والے غیرملکی طلبہ کے لیے ایک طرح سے ترغیب ہے، جس کا سدباب ڈچ زبان کے فروغ سے کیا جانا چاہیے۔
تصویر: Getty Images/J. Juinen
اشتہار
تعلیم سے متعلق ڈچ حکام نے ملکی جامعات میں انگریزی زبان میں کرائے جانے والے اعلیٰ تعلیمی کورسز کی تعداد میں نمایاں اضافے پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے جامعات میں غیرملکی طلبہ کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، دوسری جانب ڈچ وزیرتعلیم نے خبردار کیا ہے کہ دیگر زبانوں سے خوف اور بے پناہ داخلی ارتکاز نادرست عمل ہو گا۔
بلیو کارڈ: پیشہ ور افراد کے لیے یورپ کا دروازہ
بلیو کارڈ جرمنی اور یورپ میں قیام کا وہ اجازت نامہ ہے، جس کے تحت یورپی یونین سے باہر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ غیر ملکیوں کو یورپی یونین کے رکن ممالک میں ملازمت اور رہائش کی اجازت دی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/chromorange
غیر ملکیوں کا آسان انضمام
بلیو کارڈ اسکیم کو 2012ء میں متعارف کرایا گیا تھا۔ بلیو کارڈ لینے والے کے لیے یورپی یونین کے کسی بھی ملک میں کام کرنے کے مواقع کھل جاتے ہیں۔ اس کے لیے یورپی یونین کے باہر کا کوئی بھی شخص درخواست دے سکتا ہے۔ کسی جرمن یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے والے طالب علم بھی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 18 ماہ تک جرمنی میں رہ کر کام کی تلاش کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پورے یورپی یونین میں کہیں بھی
بلیو كارڈ کے حامل فرد کو ڈنمارک، آئر لینڈ اور برطانیہ کو چھوڑ کر یورپی یونین کے کسی بھی ملک میں کام کرنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ اس شخص نے یورپ سے باہر کسی ملک میں کالج کی تعلیم مکمل کی ہو اور اس کے پاس جرمنی کی کسی کمپنی کی طرف سے سالانہ کم از کم 48,400 یورو تنخواہ کی ملازمت کا كنٹریکٹ موجود ہو۔ ڈاکٹرز اور انجینئرز کے لیے سالانہ 37,725 یورو تنخواہ کا کنٹریکٹ بھی قابل قبول ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Rehder
خاص شعبوں میں زیادہ امکانات
جرمنی کے کئی علاقوں میں کچھ شعبوں کے ماہرین کی کافی کمی ہے جیسے کہ مكینیكل انجینئرز، ڈاکٹرز اور نرسز وغیرہ۔ اس کے علاوہ کئی شعبوں میں ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ یعنی تحقیق و ترقی کا کام کرنے والوں کی بھی کمی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2020ء تک جرمنی میں قریب دو لاکھ چالیس ہزار انجینئرز کی ضرورت ہوگی۔ ان علاقوں میں تربیت یافتہ لوگوں کو بلیوكارڈ ملنا زیادہ آسان ہے۔
تصویر: Sergey Nivens - Fotolia.com
بلیو کارڈ کے بارے میں تفصیلی معلومات
جرمن حکومت نے بلیو کارڈ کے بارے میں تفصیلی معلومات کی فراہمی کے لیے ایک ویب پورٹل بنا رکھا ہے http://www.make-it-in-germany.com ۔ یہاں آپ جرمنی سے متعلق تمام موضوعات پر معلومات مل سکتی ہیں۔
تصویر: make-it-in-germany.com
خاندان کی رہائش بھی ساتھ
صرف 2014ء میں ہی تقریباﹰ 12,000 لوگوں کو بلیو کارڈ دیا گیا۔ بلیو کارڈ ہولڈر اپنے کنبے کو بھی جرمنی لا سکتا ہے۔ اس کے لیے اُس کے اہلِ خانہ کی جرمن زبان سے واقفیت ہونے کی شرط بھی نہیں ہوتی۔ بلیو کارڈ ہولڈرز کے پارٹنر کو بھی کام کرنے کی اجازت مل سکتی ہے ۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Frank Leonhardt
سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کے لیے بھی بلیو کارڈ کا مطالبہ
روزگار کی وفاقی جرمن ایجنسی نے اب مطالبہ کیا ہے کہ سیاسی پناہ کے متلاشی ایسے افراد کو بھی بلیو کارڈ کی سہولت دی جائے، جو اعلیٰ تعلیمی قابلیت کے حامل ہوں اور مخصوص شعبوں میں مہارت رکھتے ہوں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تشہیری مہم کی ضرورت
بعض جرمن ماہرین اس بات کے قائل ہیں کہ بلیو کارڈ کو دیگر ممالک میں متعارف کرانے کے لیے ایک جارحانہ تشہیری مہم کی بھی ضرورت ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ جرمنی کی 1250 سے زائد کمپنیوں نے کھلے عام یہ کہہ رکھا ہے کہ وہ غیر ملکی ہنر مند افراد کو ملازمتیں فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ہالینڈ کی خاتون وزیرتعلیم انگرِڈ فان اینگلسہوفن نے پیر کے روز کہا، ’’ہمیں ایسی کہانیوں پر یقین کر کے خوف زدہ نہیں ہو جانا چاہیے، جن میں کہا جاتا ہے کہ عالمگیریت ہمیں بہا کے لے جائے گی۔‘‘ تاہم ہالینڈ میں متعدد افراد کا موقف ہے کہ انگریزی زبان کے پھیلاؤ کی وجہ سے ڈچ زبان خطرات کا شکار ہے۔
وزیرتعلیم نے مزید کہا، ’’میں ایک کھلے ڈچ معاشرے پر یقین رکھتی ہوں، جو اپنی سرحدوں سے باہر دیکھنے کی ہمت رکھتا ہے۔‘‘
ڈچ جامعات میں بڑی تعداد میں انگریزی زبان میں کرائے جانے والے ڈگری کورسز کی وجہ سے بین الاقوامی طلبہ کی بڑی تعداد حالیہ کچھ برسوں میں ہالینڈ کی جانب مائل ہوئی ہے۔ یورپی طلبہ کے لیے کم فیس اس رجحان میں اضافے کا ایک کلیدی نکتہ ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ یورپ بھر میں انگریزی زبان میں کرائے جانے والے کورسز کے اعتبار سے ہالینڈ سرفہرست ہے، جہاں بیچلرز کی ڈگری تک تو تعلیم ڈچ زبان ہی میں ہے، تاہم ماسٹرز کے قریب 74 فیصد کورسز انگریزی زبان میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈچ جامعات سے ماسٹرز ڈگری حاصل کرنے والے طلبہ کا ایک چوتھائی غیرملکیوں پر مشتمل ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس رجحان کی وجہ سے ڈچ طلبہ کے لیے اعلیٰ تعلیم کا حصول مشکل ہو رہا ہے۔
پاکستانی طلبہ کا دورہء جرمنی اور یورپ
پاکستان کے مختلف علاقوں سے پوزیشن حاصل کرنے والے 36 طلبہ ان دنوں یورپ کے دورے پر ہیں۔ یہ طلبہ برطانیہ اور سویڈن کے بعد جرمنی پہنچے۔ اس تعلیمی دورہء یورپ کے تمام تر اخراجات حکومت پنجاب برداشت کر رہی ہے۔
تصویر: DW/A. Awan
پوزیشن ہولڈر پاکستانی طلبہ کے لیے اعزاز
پاکستان کے مختلف علاقوں سے پوزیشن حاصل کرنے والے 36 طلبہ ان دنوں یورپ کے دورے پر ہیں۔ یہ طلبہ برطانیہ اور سویڈن کے بعد جرمنی پہنچے۔ اس تعلیمی دورہء یورپ کے تمام تر اخراجات حکومت پنجاب برداشت کر رہی ہے۔
تصویر: DW/A.Ishaq
ذہین اور محنتی طلبہ کی حوصلہ افزائی
پوزیشن ہولڈر طلبہ کو ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی نظام سے واقفیت دلانے اور اعلیٰ تعلیم کے لیے ان ممالک میں داخلے حاصل کرنے سے متعلق مواقع دینے کے لیے پنجاب حکومت کی طرف سے ایسے طلبہ کو بیرون ملک تعلیمی دوروں پر بھیجنے کا سلسلہ 2008ء سے جاری ہے۔
تصویر: DW/A.Ishaq
میرٹ پر منتخب طلباء و طالبات
اس گروپ کے ساتھ حکومت پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل پروٹوکول اسجد غنی طاہر کے مطابق یہ ٹیلنٹڈ اسٹوڈنٹس کا گروپ ہے جنہوں نے اپنے بورڈز اور یونیورسٹی میں ٹاپ کیا ہے۔ یہ 36 طلبہ ہیں جو پورے پاکستان سے میرٹ پر اس دورے کے لیے منتخب ہوئے ہیں۔
تصویر: DW/A.Ishaq
دورے کا مقصد یورپی نظام تعلیم سے واقفیت
اس تعلیمی گروپ کی سربراہی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد خلیق الرحمان کے مطابق، ’’اس دورے کا مقصد مختلف لیول کے امتحانات میں پوزیشنیں حاصل کرنے والے ان بچوں کو یورپی یونیورسٹیز کا ایکسپوژر دینا ہے تاکہ وہ تعلیمی نظام کو دیکھیں، وہاں مواقع دیکھیں اور وہاں کے اساتذہ سے ملیں، لیبارٹریوں کو دیکھیں اور نوبل انعام یافتگان سے مل سکیں تاکہ ان کا وژن وسیع ہو۔‘‘
تصویر: DW/A.Ishaq
برطانیہ اور سویڈن کے اعلی تعلیمی اداروں کا دورہ
یہ گروپ ایک ماہ کے دورے پر ہے اور جرمنی آنے سے قبل یہ گروپ برطانیہ اور سویڈن کا دورہ کر چکا ہے۔ ان طلبہ نے برطانیہ کی آکسفورڈ، کیمبرج، سرے، ایڈنبرا اور گلاسکو یونیورسٹی کے علاوہ یو سی ایل اور لندن اسکول آف اکنامکس سمیت متعدد معروف یونیورسٹیز کا دورہ کیا جب کہ سویڈن میں اسٹاک ہوم یونیورسٹی، کے ٹی ایچ اور شالمرز یونیورسٹی جیسے معروف تعلیمی اداروں کا دورہ کیا ہے۔
تصویر: DW/A. Awan
دورہ برلن
پاکستانی پوزیشن ہولڈر طلبہ کا یہ گروپ سویڈن سے جرمن دارالحکومت برلن پہنچا جہاں انہوں نے برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، فری یونیورسٹی اور پوسٹ ڈیم یونیورسٹی برلن کا دورہ کیا۔ اس گروپ نے برلن میں قائم پاکستانی ایمبیسی کا بھی دورہ کیا۔
تصویر: Embassy of Pakistan
جرمنی میں اعلی تعلیم و تبادلے کے ادارے DAAD کا دورہ
طلبہ کے اس گروپ 25جولائی کو بون یونیورسٹی اور جرمنی میں اعلی تعلیم و تبادلے کے ادارے DAAD کا دورہ کرنے کے لیے بون پہنچا۔ DAAD کے ہیڈکوارٹرز میں ان طلبہ کو جرمنی میں تعلیمی مواقع اور یہاں کے تعلیمی نظام کے بارے میں معلومات کے ساتھ ساتھ یہاں کے لائف اسٹائل اور اسکالر شپس اور فنڈنگ کے مواقعے کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کی گئیں۔
تصویر: DW/A. Awan
’بہت کچھ سیکھنے کے مواقع‘
اس گروپ میں شریک طلبہ کے مطابق اس دورے میں انہیں بہت کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے اور اس سے نہ صرف انہیں یورپی تعلیمی اداروں میں تعلیمی مواقع مل سکتے ہیں بلکہ جو کچھ انہوں نے دیکھا اور سیکھا وہ ایک یادگار تجربہ ہے جو زندگی بھر ان کے کام آئے گا۔
تصویر: DW/A. Awan
اسٹیٹ گیسٹ اور واکنگ ایمبیسڈر
پنجاب حکومت کے ڈی جی پروٹوکول اسجد غنی طاہر کے مطابق، ’’ان طلبہ کو پنجاب حکومت نے اسٹیٹ گیسٹ کا درجہ دیا ہوا ہے۔ 30جون کو لاہور سے جب یہ طلبہ روانہ ہوئے وزیراعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے انہیں خود سی آف کیا، انہیں گارڈ آف آنر دیا گیا اور انہیں واکنگ ایمبیسڈر کا درجہ دیا گیا ہے۔‘‘
تصویر: DW/A. Awan
بیرون ملک داخلہ حاصل کرنے والوں کے لیے اسکالر شپ
اسجدغنی کے مطابق گروپ میں شامل یہ طلبہ اگر ان غیر ملکی تعلیمی اداروں میں داخلہ حاصل کرتے ہیں تو ایسی صورت میں پنجاب حکومت ان طلبہ کو اسکالر شپ بھی فراہم کرتی ہے جس کے لیے ایک انڈوومنٹ فنڈ قائم ہے۔
تصویر: DW/A. Awan
یادگاری شیلڈز کا تبادلہ
پاکستانی وفد کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمد خلیق الرحمان نے بون میں DAAD کے ہیڈ آفس کے دورے کے دوران ادارے کو خصوصی یادگاری شیلڈ بھی پیش کی۔
تصویر: DW/A. Awan
11 تصاویر1 | 11
ہالینڈ کے لیکچراروں کی سب سے بڑی یونین ’بیٹر انڈریوجس نیدرلینڈ‘ BON کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا، تو یہ ڈچ زبان کا قتل ہو گا۔ اس تنظیم کے مطابق ہالینڈ کی ٹوینٹے اور ماستریشت یونیورسٹیوں کی جانب سے متعدد کورسز صرف اور صرف انگریزی زبان میں متعارف کرانے کا فیصلہ ’نہایت خوف ناک‘ ہے، جس کے ڈچ زبان کے مستقبل پر نہایت منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔