1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فائرنگ پہلے پاکستان کی جانب سے کی گئی تھی، رپورٹ

28 نومبر 2011

امریکی جریدے ’وال اسٹریٹ جرنل‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاک افغان سرحد پر نیٹو کی فضائی کارروائی پاکستانی افواج کی جانب سے افغان اور نیٹو فورسز پر کی گئی فائرنگ کا رد عمل تھا۔

پاکستان کے بعض امریکہ مخالف حلقوں کی جانب سے اتوار کے روز نیٹو کے مبینہ حملے کے خلاف مظاہرہ کیا گیاتصویر: dapd

پاکستان نے ’وال اسٹریٹ جرنل‘ کے دعوے کی تردید کی ہے۔ ہفتے کے روز نیٹو کی مبینہ فضائی کارروائی میں چوبیس پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ پاکستان کی جانب سے اس واقعے پر شدید رد عمل سامنے آیا ہے اور اسلام آباد نے نیٹو کی رسد روکنے کے علاوہ نیٹو کے زیر استعمال پاکستان کے شمسی ایئر بیس کو خالی کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ پاکستانی حکومت کے مطابق وہ اس واقعے کے بعد امریکہ اور نیٹو کے ساتھ ہر سطح پر تعاون کی پالیسی پر نظر ثانی کر رہی ہے۔

ادھر برطانوی اخبار ’گارڈیئن‘ نے بھی اسی نوعیت کی ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں افغان حکومت کے تین عہدیداروں اور ایک مغربی عہدیدار کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ان عہدیداروں کے مطابق نیٹو کی فضائی مدد اس لیے طلب کی گئی تھی تاکہ بین الاقوامی افواج کو طالبان کے حملوں سے بچایا جا سکے۔ ایک افغان عہدیدار کا کہنا ہے، ’’افغان افواج کے ٹھکانوں پر فائرنگ کی گئی جس کے بعد انہوں نے نیٹو فضائیہ کی مدد طلب کی۔‘‘

پاکستان نے نیٹو کی رسد معطل کر دی ہےتصویر: dapd

مغربی عہدیدار کے مطابق یہ فائرنگ پاکستان کے فوجی ٹھکانے سے کی گئی تھی۔ ان عہدیداروں کا کہنا کہ انہیں اندیشہ ہے کہ فائرنگ طالبان کی جانب سے نہیں بلکہ پاکستانی فوج کی جانب سے کی گئی تھی۔

دوسری جانب دو امریکی سینیٹروں نے اپنی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ سختی سے پیش آئے۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ریپبلیکن سینیٹر جون کیل اور ڈیموکریٹ ڈِک ڈربن کی جانب سے تجویز پاکستان کی جانب سے نیٹو کا سپلائی روٹ بند کرنے اور شمسی ایئربیس خالی کرنے کے مطالبے کا ردِ عمل ہے۔ جون کیل نے کہا ہے کہ پاکستان کے لیے امریکی امداد القاعدہ کے خلاف لڑائی میں تعاون سے منسلک ہونی چاہیے۔ اُدھر جرمنی نے پاکستان کو پیش کش کی ہے کہ وہ ہفتے کے حملے میں زخمی فوجیوں کو طبی امداد فراہم کر سکتا ہے۔

رپورٹ: شامل شمس ⁄  خبر رساں ادارے

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں