فائر بندی یوکرائن کا مسئلہ ہے، روس کا نہیں: پوٹن
27 اگست 2014منسک میں منگل کو رات گئے تک جاری رہنے والے اجلاس میں صرف یوکرائن کے صدر پیٹرو پوروشینکو اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن ہی نہیں بلکہ یورپی یونین کی خارجہ امور کی نگران اعلیٰ ترین عہدیدار کیتھرین ایشٹن کے علاوہ قزاقستان اور بیلاروس کے صدور بھی شریک ہوئے۔ اس کثیر الفریقی اجلاس کے بارے میں، جو مشرقی یوکرائن میں روس نواز علیحدگی پسندوں کی مسلح بغاوت کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران کے خاتمے کی کوششوں کے لیے پوروشینکو اور پوٹن کی پہلی باقاعدہ مذاکراتی ملاقات بھی تھا، ماہرین کا کہنا تھا کہ شاید اس اجلاس کے ذریعے بحران کے جلد خاتمے کی کوئی راہ نکل سکے۔
لیکن اجلاس کے بعد یوکرائنی صدر پوروشینکو نے بدھ کو علی الصبح بتایا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور دیگر شرکاء نے یوکرائن کی طرف سے پیش کردہ امن منصوبے کی اصولی تجویز کا تو خیرمقدم کیا ہے لیکن ساتھ ہی روسی صدر بار بار اس بات پر بھی زور دیتے رہے کہ مشرقی یوکرائن کے روس نواز باغیوں کے ساتھ کوئی بھی فائر بندی معاہدہ صرف خود یوکرائن ہی طے کر سکتا ہے۔
خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے بیلاروس کے دارالحکومت سے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ منسک اجلاس میں پیٹرو پوروشینکو اور ولادیمیر پوٹن کے مابین علیحدگی میں بھی ملاقات ہوئی، جو دو گھنٹے تک جاری رہنے کے بعد رات گئے ختم ہوئی۔ اس ملاقات کے اختتام پر ایسی کوئی امید نظر نہ آئی کہ مشرقی یوکرائن کا بحران جلد ختم ہو سکے گا۔
اس ملاقات میں روسی صدر پوٹن نے اپنے یوکرائنی ہم منصب پوروشینکو کو بتایا، ’’اگر آپ کسی بھی فائر بندی منصوبے کی بات کرتے ہیں تو یہ یوکرائن کا مسئلہ ہے، روس کا نہیں۔‘‘
منسک کے سربراہی اجلاس کے اختتام پر یوکرائن کے صدر نے صحافیوں کو بتایا کہ اس اجلاس میں وہ تمام شرکاء کی طرف سے یوکرائن کے امن منصوبے کے لیے حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ صدر پوروشینکو نے کہا کہ اب یوکرائن کو بحران کے حل کے لیے ایک روڈ میپ کی تیاری پر کام کرنا ہے تاکہ اس تنازعے کو پرامن انداز میں ختم کیا جا سکے۔
دوسری طرف روسی صدر پوٹن نے، جنہوں نے منسک میں اپنے یوکرائنی ہم منصب کے ساتھ علیحدگی میں ملاقات اور دیگر نشستوں کو بھی مجموعی طور پر مثبت قرار دیا، کہا کہ روس صرف اعتماد کی اس فضا کے قیام میں مدد دے سکتا ہے جو یوکرائن کے بحران کے حوالے سے کسی بھی مذاکراتی عمل کے لیے ضروری ہے۔
ساتھ ہی لیکن ولادیمیر پوٹن نے یہ بھی کہا کہ روس کسی بھی ایسی جنگ بندی کی شرائط کے بارے میں بات چیت کرنے کا مجاز نہیں ہے، جو کییف حکومت اور یوکرائن کے باغی علاقوں ڈونیٹسک اور لوہانسک کے درمیان طے پانی چاہیے۔
اس تناظر میں منسک میں پوٹن پوروشینکو ملاقات کے ایسے کوئی بڑے نتائج نہیں نکل سکے جنہیں حقیقی معنوں میں واضح پیش رفت قرار دیا جا سکے۔ اس کے برعکس جو ایک نتیجہ واضح ہے، وہ یہ کہ مشرقی یوکرائن کا بحران جلد حل ہوتا نظر نہیں آتا۔
کییف حکومت اور مغربی ملکوں کا کہنا ہے کہ مشرقی یوکرائن میں روس نواز باغیوں کو ماسکو کی طرف سے جنگجوؤں اور ساز و سامان کے ساتھ ساتھ کئی طرح کی دوسری امداد بھی مل رہی ہے۔ کییف حکومت ابھی تک اس تنازعے پر قابو پانے کی کوششیں کر رہی ہے اور اب تک یہ خونریز بحران یوکرائن کے دو ہزار سے زائد شہریوں اور 700 سے زائد فوجیوں کی جان لے چکا ہے۔