فادر کرسمس بننے کا خواہش مند لڑکا چمنی میں پھنس کر رہ گیا
25 دسمبر 2018
مسیحی مذہبی تہوار کرسمس کے موقع پر عملاﹰ سانتا کلاز یا فادر کرسمس بننے کا خواہش مند ایک کم عمر لڑکا آسڑیا کے صوبے لِنس کے ایک گھر میں کئی گھنٹوں تک ایک چمنی میں پھنس کر رہ گیا۔ اسے فائر بریگیڈ کے کارکنوں نے بچایا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/BERUFSFEUERWEHR LINZ
اشتہار
یہ چودہ سالہ لڑکا چمنی میں پھنس جانے کے بعد اونچی آواز میں روتے روتے مدد کے لیے پکار رہا تھا کہ ایک ہمسائے نے اس کی چیخیں سن کر مقامی پولیس کو اطلاع کر دی، جس کے ساتھ آنے والے فائر بریگیڈ کے کارکنوں نے کافی دیر تک کوشش کے بعد اس بچے کو بروقت بچا لیا۔
مسیحی مذہبی داستانوں کے مطابق کرسمس کے موقع پر بالعموم سرخ اور سفید لباس پہنے ہوئے اور چاندنی جیسے سفید بالوں والا بہت فربہ سانتا کلاز، جسے فارد کرسمس بھی کہا جاتا ہے، اس تہوار سے چند روز قبل، خاص طور پر چوبیس دسمبر کی رات عام گھروں کی چمنیوں کے راستے ان میں داخل ہوتا ہے اور بچوں کے لیے کرسمس کے تحائف ساتھ لاتا ہے۔
آسٹریا کے اخبار Österreich کے مطابق جو آسٹرین ٹین ایجر لِنس نامی شہر میں ایک گھر کی چمنی میں پھنس گیا، وہ عملی طور پر سانتا کلاز کا کردار ادا کرنے کا خواہش مند تھا لیکن یہ کوشش اسے بہت مہنگی پڑی۔
تصویر: Fotolia/tmc_photos
اس لڑکے کے بروقت بچا لیے جانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے اس کے 49 سالہ ہمسائے نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ اتوار تئیس اور پیر چوبیس دسمبر کی درمیانی رات وہ دیر تک ٹیلی وژن دیکھتا رہا تھا۔ پھر جب علی الصبح قریب ساڑھے تین بجے اس نے سونے کا ارادہ کیا، تو اچانک اسے کسی کے بہت اونچا اونچا رونے کی آواز آئی۔
’’میں نے فوراﹰ پولیس کو فون کر دیا۔ اور پولیس کے آنے سے پہلے ہی میں نے اپنے گھر کی بالائی منزل پر جا کر دیکھا تو مجھے اندازہ ہوا کہ اس چیخ و پکار کی آواز ساتھ والے گھر کی چمنی سے آ رہی تھی۔ پھر میں نے آواز دے کر اس لڑکے کو بتایا کہ وہ پریشان نہ ہو، اور میں نے اس کی مدد کے لیے پولیس بلا لی ہے۔‘‘
اس شخص نے مزید بتایا، ’’پولیس کے ساتھ فائر بریگیڈ کے کارکن بھی آ گئے تھے، جنہوں نے قریب چار گھنٹوں تک چمنی میں پھنسے رہنے والے اس لڑکے کو کافی محنت کے بعد ایک رسی کے ذریعے کھینچ کر باہر نکالا۔‘‘
ڈارکو جانجیوِچ / م م / ع ا
جرمنی میں کرسمس کی روایات
کرسمس کے موقع پر مذہبی سروس، شام ڈھلے تحائف کا تبادلہ اور پھر دوست احباب کے ساتھ کسی پَب میں جا کر پینا پلانا اور گپ شپ لگانا کرسمس کی شام جرمن روایات کا لازمی حصہ ہوتا ہے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ روایات بدل بھی رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
چمکتی دمکتی اَشیاء سے سجا کرسمس ٹری
ایک زمانے میں کرسمس ٹری چھت سے لٹکا ہوتا تھا جبکہ آج کل اسے کمرے کے ایک کونے میں رکھا جاتا ہے۔ کرسمس ٹری کو اس تہوار کی سجاوٹ میں مرکزی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔
تصویر: Fotolia/megakunstfoto
سادہ کھانا
چوبیس دسمبر کو صبح کے وقت لوگ باقی ماندہ تحائف خریدنے کے لیے بازار کا رخ کرتے ہیں، دوپہر کو کرسمس ٹری کو سجاتے ہیں اور سہ پہر کو مذہبی سروس میں شرکت کے لیے چرچ جاتے ہیں۔ چونکہ زیادہ تر کنبوں کے لیے یہ دن مصروفیات سے پُر ہوتا ہے، اس لیے شام کا کھانا سادہ ہی ہوتا ہے، یعنی آلو کا سلاد اور قیمہ بھری آنت۔ بطخ کے گوشت کا مرغن کھانا کرسمس کے باقی دنوں کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
تصویر: imago
کرسمس بازاروں کی رونق
دیکھا جائے تو کرسمس بازار کرسمس کا لازمی حصہ نہیں ہوتے اور بہت سے مقامات پر چوبیس دسمبر سے پہلے ہی یہ بازار بند ہو جاتے ہیں تاہم بہت سے مقامی باشندوں کے ساتھ ساتھ بیرون ملک سے آنے والے ہزاروں سیاح بھی آخر وقت تک نیورمبرگ اور ڈریسڈن جیسے شہروں کے مشہور کرسمس بازاروں کو ضرور دیکھنے کے لیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Broll
کرسمس کی داستان، مجسموں کی شکل میں
کرسمس کے دنوں میں بہت سے جرمن شہری اپنے گھروں کو حضرتِ عیسیٰ اور اُن کی والدہ حضرت مریم کے لکڑی کے بنے مجسموں سے سجاتے ہیں۔ یہ روایت صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ ایک دور میں اس طرح کے مجسمے اُن عقیدت مندوں کے لیے بنائے جاتے تھے، جو پڑھے لکھے نہ ہونے کی وجہ سے مسیحیت کے ابتدائی دنوں کی داستان پڑھنے سے قاصر ہوا کرتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
شمالی جرمن ثقافتی روایات
ایک زمانے میں کرسمس سے پہلے کے ہفتوں میں روزے رکھنے کا رواج تھا اور خاص طور پر بچوں کو یہ بتانے کے لیے کہ روزے ختم ہونے میں ابھی کتنے ہفتے باقی ہیں، اُنیس ویں صدی میں شمالی جرمنی میں چار بڑی موم بتیوں کی روایت شروع کی گئی۔ ہر نئے ہفتے کے آغاز پر ایک نئی موم بتی جلائی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تحائف کا تبادلہ چوبیس دسمبر کو ہی
جرمنی میں تحائف کے منتظر بے صبرے افراد کو کرسمس کے دن تک کے لیے انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ روایت یہ ہے کہ کرسمس سے ایک شام قبل ہی یہ تحائف تقسیم کر دیے جاتے ہیں۔ یہ تحائف عموماً بہت زیادہ مہنگے نہیں ہوتے بلکہ ایک سروے کے مطابق تو تقریباً ایک تہائی جرمن شہریوں کے لیے اپنے قریبی عزیزوں اور دوستوں کے ساتھ مل کر گزارا گیا وقت مثلاً سیر و تفریح ہی کافی ہوتا ہے اور ان کے لیے بہت زیادہ خوشی کا باعث بنتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دستکاری کے خصوصی نمونے
جرمن صوبے سیکسنی کے علاقے اَیرس ماؤنٹینز کی لکڑی کو تراش کر بنائی گئی دستکاری مصنوعات جرمنی ہی نہیں پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ لوگ دسمبر کے اوائل ہی سے انہیں گھروں کی زینت بنانا شروع کر دیتے ہیں تاہم بہت سے جرمن گھرانوں میں امریکا سے آئی ہوئی مصنوعات مثلاً پلاسٹک کے سانتا کلاز یا پھر برقی قمقموں کے استعمال کا بھی رجحان بڑھ رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کرسمس کی خصوصی مٹھائیاں
اس مسیحی تہوار کے موقع پر دیگر مٹھائیوں کے ساتھ ساتھ یہ خصوصی کیک بھی شوق سے کھایا جاتا ہے۔ اس میں بادام اور کشمش وغیرہ ڈالے جاتے ہیں۔ جرمن شہر ڈریسڈن کے کرسمس کیک خاص طور پر مشہور ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کرسمس سے ایک روز پہلے کی لمبی شام
جب چوبیس دسمبر کو تحائف کا تبادلہ مکمل ہو جاتا ہے اور رات کا کھانا بھی کھا لیا جاتا ہے تو بہت سے نوجوان لڑکے لڑکیاں شہر میں سیر و تفریح کے لیے نکل جاتے ہیں۔ تب کیفے ہاؤسز اور ریستورانوں میں اسکول کے دور کے پرانے دوستوں سے ملاقاتیں کی جاتی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق ہر چھٹا جرمن شہری چوبیس دسمبر کی شام ایسے ہی گزارتا ہے۔
تصویر: DW/M. Mohseni
سوئٹزرلینڈ سے درآمدہ نئی روایت
بطخ کا بھنا ہوا گوشت، اُبلے ہوئے آلو یا آٹے کے پیڑے جنہیں بھاپ میں پکایا جاتا ہے اور سرخ رنگ کی بند گوبھی، کرسمس کی شام کا یہ کھانا بہت سے جرمنوں میں بچپن کی یادیں تازہ کر دیتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے سوئٹزرلینڈ سے آئی ہوئی اور پنیر سے بنی ہوئی ایک روایتی ڈِش جرمن باورچی خانوں میں پہنچ چکی ہے اور کرسمس کے موقع پر شوق سے کھائی جاتی ہے۔