’فاسٹ فیشن‘: فیشن ملبوسات کی عالمی صنعت کا تاریک پہلو
12 اکتوبر 2018
دنیا بھر میں فیشن ملبوسات کی صنعت کا ایک ایسا تاریک استحصالی پہلو بھی ہے، جس کا بہت کم صارفین کو علم ہے۔ جرمنی میں بارہ اکتوبر کو شروع ہو کر چار ماہ سے زائد عرصے تک جاری رہنے والی ایک نمائش کا موضوع یہی تاریک پہلو ہے۔
اشتہار
نیوز ایجنسی کے این اے کی جمعہ 12 اکتوبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق جرمن شہر کولون میں آج سے ایک ایسی نمائش شروع ہو گئی ہے، جو اگلے برس 24 فروری تک جاری رہے گی۔ اس نمائش کا عنوان ہے، ’’فاسٹ فیشن: فیشن کی صنعت کا تاریک پہلو۔‘‘
اس نمائش میں عالمی فیشن انڈسٹری کی کارکردگی پر اس پہلو سے روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ٹیکسٹائلز خصوصاﹰ ملبوسات کی تیاری کے بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والے شعبے میں ظاہری منظر نامے کے پیچھے اصل حالات کار کیا ہیں، کارکنوں کو کس طرح کی صورت حال کا سامنا رہتا ہے اور یہ صنعت ماحولیاتی حوالے سے بھی کتنے تباہ کن نتائج کا سبب بن رہی ہے۔
اس نمائش کا اہتمام کولون شہر کے راؤٹن شٹراؤخ یوئسٹ میوزیم میں کیا گیا ہے۔ اس نمائش کے پہلی بار انعقاد کا خیال شمالی جرمن ہیمبرگ میں قائم میوزیم آف آرٹ اینڈ انڈسٹری کو 2015ء میں آیا تھا۔ اس نمائش کے انعقاد کی سوچ میں تب ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرنے والے دو بڑے ممالک پاکستان اور بنگلہ دیش کی فیکٹریوں میں ہلاکت خیز آتش زدگی کے واقعات نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
تب پاکستان اور بنگلہ دیش کی ان ٹیکسٹائل فیکٹریوں میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے اور عالمی سطح پر اس بارے میں ایک طویل بحث بھی شروع ہو گئی تھی کہ ترقی پذیر ممالک کی ایسی فیکٹریوں میں عام طور پر استحصال کا شکار لاکھوں کارکن کیسے کیسے پرخطر حالات میں کام کرتے ہیں۔
جدید اور شائستگی سے عبارت عصری مسلم فیشن ملبوسات
اسلام اور جدید طرز کے فیشن، مغربی دنیا میں کئی حلقوں کی طرف سے یہ ایک تضاد سے بھری بات قرار دی جاتی ہے۔ اس موضوع پر امریکی شہر سان فرانسسکو کے ڈی ینگ میوزیم میں منعقدہ نمائش 6 جنوری تک جاری رہے گی۔
تصویر: Sebastian Kim
جدید لیکن شائستہ
ڈی ینگ میوزیم میں رکھے گئے مسلم پہناوے جدیدیت اور شائستگی کے عناصر کے حامل خیال کیے گئے ہیں۔ مسلم ممالک میں مروج جدید فیشن کے ملبوسات ریشمی اور کرسٹل سے مزین ہیں۔ اس تصویر میں پہناوے کی ڈیزائننگ ملائیشیا کے فیشن ڈیزائنر برنارڈ چندرن نے کی ہے۔ چندرن ملائیشیا کی اشرفیہ میں ایک مقبول ڈیزائنر ہیں۔
تصویر: Fine Arts Museums of San Francisco
جکارتہ سے نیو یارک تک
ملائیشیا ہی کے ڈیان پیلانگی نے بھی اپنے فیشن ملبوسات کو مغرب میں متعارف کرایا ہے۔ اس نوجوان ڈیزائنر کے ملبوسات کو پہن کر لندن، میلان اور نیو یارک کے فیشن شوز میں مرد اور خواتین ماڈل کیٹ واک کر چکے ہیں۔
تصویر: Fine Arts Museums of San Francisco
سیاسی پیغام
ڈی ینگ میوزیم کا فیشن شو اصل میں ’اسلام سے خوف‘ سے جڑا ہوا ہے۔ ایک جیکٹ پر امریکی دستور کی پہلی شق کو عربی میں ترجمے کے ساتھ چسپاں کیا گیا ہے۔ امریکی آئین کی یہ شق آزادئ مذہب کی ضامن ہے۔ یہ جیکٹ لبنانی ڈیزائنر سیلین سیمعن ورنون کی کاوش ہے۔ یہ لبنانی فیشن ڈیزائنر سن انیس سو اسّی کی دہائی میں کینیڈا بطور مہاجر پہنچی تھیں لیکن بعد میں وہ امریکا منتقل ہو گئی تھیں۔
تصویر: Sebastian Kim
ٹرمپ کی ’مسلمانوں پر پابندی‘ کا ایک جواب
سیلین سیمعن نے اپنے ڈیزائن کردہ ملبوسات کو عصری سیاسی رویوں سے مزین کیا ہے۔ انہوں نے ’بین‘ یعنی پابندی کے لفظ کو اپنے سکارف پر واضح انداز میں استعمال کیا ہے۔ چند اسکارفس پر ایسے ممالک کی سیٹلائٹ تصاویر پرنٹ ہیں، جو امریکی صدر ٹرمپ کی عائد کردہ پابندی سے متاثر ہوئے۔ اس تصویر میں نظر آنے والی ماڈل ایرانی نژاد امریکی شہری ہُدیٰ کاتبی ہیں۔
تصویر: Fine Arts Museums of San Francisco/Driely Carter
اسپورٹس فیشن
اس نمائش میں ملبوسات، جیکٹس اور اسکارفس کے علاوہ اسپورٹس فیشن سے جڑے لباس بھی رکھے گئے ہیں۔ ان میں نائکی کا حجاب اور احدہ زانیٹی کی متنازعہ برکینی بھی شامل ہیں۔ اس برکینی کو سن 2016 میں فرانس میں عبوری مدت کے لیے پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔
تصویر: DW/A. Binder
طرز تعمیر کی علامتی طاقت
ڈی ینگ میوزیم کے نمائشی ہال کو مشہور تعمیراتی فرم حریری اینڈ حریری نے ڈیزائن کیا ہے۔ یہ تعمیراتی فرم دو ایرانی نژاد امریکی بہنوں کی ہے۔ نمائش دیکھنے والے اس ہال کے سحر میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ نمائش فرینکفرٹ اور میلان میں بھی کی جائے گی۔
تصویر: DW/A. Binder
سوشل نیٹ ورکس: اظہار کے مقام
اس نمائش کو مسلم دنیا کے درجنوں بلاگرز، فیشن جریدوں اور سرگرم کارکنوں سے معنون کیا گیا ہے۔ اس نمائش میں جدید عصری مسلم دنیا کے فیشن ملبوسات کے کئی پہلوؤں کو سمو دیا گیا ہے۔ سان فرانسسکو میں یہ نمائش اگلے برس چھ جنوری تک جاری رہے گی۔
تصویر: DW/A. Binder
7 تصاویر1 | 7
اس نمائش کے منتظمین کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق 24 فروری 2019ء تک جاری رہنے والی اس نمائش کو ’فاسٹ فیشن‘ کا نام دیا گیا ہے۔
فاسٹ فیشن سے ایک اصطلاح کے طور پر مراد یہ لی جاتی ہے کہ کس طرح مختلف مغربی ممالک کے بڑے بڑے کاروباری ادارے بیرون ملک فیکٹریوں میں اپنے لیے زیادہ سے زیادہ تیز رفتاری سے لیکن کم سے کم قیمتوں پر ایسے فیشن ملبوسات تیار کرواتے ہیں، جو بعد ازاں مغربی صارفین کو مختلف قیمتی برانڈز کے ناموں پر بہت مہنگے داموں فروخت کیے جاتے ہیں۔
کے این اے کے مطابق ’فاسٹ فیشن‘ ملبوسات کی عالمی صنعت میں اقتصادی اور انسانی استحصال کی وہ شکل ہے، جس کے خلاف کچھ عرصہ قبل ایک نئی تحریک بھی شروع ہو گئی تھی۔
اس نئی سوچ کو ’سلو فیشن موومنٹ‘ یا ’کم رفتار فیشن تحریک‘ کا نام دیا گیا تھا۔
ایسا اسی تحریک کے نتیجے میں ممکن ہوا تھا کہ ترقی پذیر ممالک میں تیار کردہ فیشن ملبوسات خریدنے والے صارفین، فروخت کنندہ ادارے اور پیداواری کمپنیاں مل کر خود پر زیادہ ذمے داری لیں اور اس صنعت میں کام کرنے والے لاکھوں انسانوں کے لیے احترام اور بہت متنوع خام مال اور تحفظ ماحول کے لیے بھی زیادہ دور اندیشی کا مظاہرہ کریں۔
م م / ش ح / کے این اے
لندن فیشن ویک: دو پاکستانی بہنوں کے ڈیزائن کردہ ملبوسات کی نمائش
برطانوی، سوئس اور پاکستانی فیشن برینڈ SHENANNZ مغربی ممالک میں مقیم سیاہ، سفید اور مسلم خواتین کو ماڈیسٹ ویئر کی جانب راغب کرنے کی کاوش ہے۔ مسلم خواتین اس متبادل فیشن اسٹائل سے مغربی معاشرے میں کسی سے پیچھے نہیں رہیں گی۔
تصویر: Frank MacDonald
لندن فیشن ویک میں دو پاکستانی بہنوں کے ڈیزائن کردہ ملبوسات کی نمائش
لندن فیشن ویک کے دوران ہاؤس آف آئکن کے ایک شو میں پاکستانی بہنوں کے فیشن برینڈ SHENANNZ کی نئی کلیکشن کو متعارف کروایا گیا۔ شینیلا علی کراچی میں رہتی ہیں لیکن انیلا حسین سوئٹزرلینڈ میں مقیم ہیں ہے۔ تاہم یہ برینڈ لندن، جنیوا اور کراچی میں موجود ہے۔
تصویر: Frank MacDonald
مغربی معاشرے میں مسلم خواتین مردوں کے شانہ بشانہ
SHENANNZ برینڈ مغربی ممالک میں مقیم سیاہ، سفید اور مسلم خواتین کو ماڈیسٹ ویئر کی جانب راغب کرنے کی کاوش ہے۔ مسلم خواتین اس متبادل فیشن اسٹائل سے مغربی معاشرے میں کسی سے پیچھے نہیں رہیں گی۔ شہنیلا اور انیلا کا کہنا ہے کہ ان کے ڈیزائن کردہ ملبوسات مسلم خواتین کو ایک منفرد انتخاب فراہم کرتے ہیں جو کہ جدید اور روایتی فیشن کا میلاپ ہے۔
تصویر: Frank MacDonald
برطانوی، سوئس اور پاکستانی فیشن برینڈ SHENANNZ کے دلکش ملبوسات
نت نئے فیشن کی تشہیر کرنے والی ماڈلز برطانوی، سوئس اور پاکستانی فیشن برینڈ SHENANNZ کے دلکش ملبوسات زیب تن کیے لندن فیشن ویک کی ریمپ پر جلوے دکھاتی نظر آئیں۔
تصویر: Frank MacDonald
'ماڈیسٹ ویئر'
’ماڈیسٹ ویئر‘ کے عنوان سے منعقد کیے گئے اس فیشن شو میں شینانزکے حجاب کلیکشن بھی پیش کیے گئے۔
تصویر: Frank MacDonald
مشرقی اور مغربی ملبوسات کا امتزاج
ہاؤس آف آئکن ابھرتے ہوئے فیشن ڈیزائنر کو پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے۔ شہنیلا علی اور انیلا حسین کا کہنا ہے کہ لندن فیشن ویک میں انہوں نے مشرق اور مغرب میں پہنے جانے ملبوسات کا امتزاج تخلیق کرنے کی کوشش کی ہے۔
تصویر: Frank MacDonald
پندرہ ملبوسات پر مبنی منفرد کلیکشن
ہاؤس آف آئکن کے اس فیشن شو کا مرکزی عنوان 'Grandeur of Sophia' تھا۔ جس کا مقصد تمام شعبہ جات میں صنفی مساوات کو فروغ دینا ہے۔
تصویر: Frank MacDonald
برینڈ کی آمدنی بچوں کی تعلیم اورخواتین کو بااختیار بنانے پر خرچ کی جاتی ہے
انیلا حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ SHENANNZ برینڈ کا مقصد فیشن صنعت کے ذریعے سماجی مساحل پر کام کرنا ہے۔ اس برینڈ کی آمدنی سے بچوں کی تعلیم اورخواتین کو خود مختار بنانے پر کام کیا جاتا ہے۔
تصویر: Frank MacDonald
شینانزکی برینڈ ایمبیسڈر عتیقہ چوھدری نے شو سٹوپر کے فرائض انجام دیے
انیلا اور شہنیلا اپنے تخلیق کردہ ملبوسات سے ان خواتین کو متاثر کرنا چاہتی ہیں جو شاید خواب تو دیکھتی ہیں مگر ان کی تعبیر کے لیے جدوجہد سے گریز کرتی ہیں۔