’فاطمہ‘، کیتھولک مسیحیوں کی اہم ترین زیارت گاہوں میں سے ایک
مقبول ملک
14 اکتوبر 2020
بڑے مذاہب کے مابین مختلف خطوں میں تصادم اور بقائے باہمی کی مثالیں انسانی تاریخ کا اہم حصہ ہیں۔ اسلامی نام ’فاطمہ‘ سے منسوب ایک یورپی شہر ایسا بھی ہے جو دنیا بھر میں کیتھولک مسیحیوں کی اہم ترین زیارت گاہوں میں سے ایک ہے۔
اشتہار
یہ شہر جنوبی یورپی ملک پرتگال کے دارالحکومت لزبن سے تقریباﹰ 130 کلومیٹر شمال کی طرف واقع ہے۔ یہ چھوٹا سا شہر 'فاطمہ‘ لزبن سے پورٹو جاتے ہوئے راستے میں آتا ہے، اس کا مجموعی رقبہ تقریباﹰ 72 مربع کلومیٹر اور آبادی صرف 13 ہزار کے قریب ہے۔
یہ شہر 'فاطمہ‘ سے موسوم کیوں؟
آج سے ہزار سال سے زیادہ عرصہ قبل جنوبی یورپ میں موجودہ اسپین اور پرتگال کے کئی علاقوں پر عرب مسلمانوں کی حکمرانی تھی۔ اس دور میں اس شہر کی بنیاد ایک عرب مسلم رہنما نے اپنی بیٹی 'فاطمہ‘ کے نام پر رکھی، جسے یہ نام پیغمبر اسلام کی صاحبزادی کے نام کی نسبت سے دیا گیا تھا۔
پھر آج سے 873 برس قبل 1147ء میں جب مسیحیوں نے اس شہر اور کئی دیگر علاقوں کو فتح کر لیا، تو انہوں نے اس شہر کا نام تو نہیں بدلا مگر اس کے بعد اس شہر پر مسیحی آبادی، ثقافت اور مذہب کے اثرات حاوی ہو گئے۔ پرتگالی لوک کہانیوں میں اس دور کے واقعات آج بھی پڑھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔
دنیا کی مقبول ترین کیتھولک مسیحی زیادت گاہوں میں سے ایک
کیتھولک مسیحی روایات کے مطابق اس شہر سے منسوب اہم مذہبی واقعہ 13 مئی 1917ء کو پیش آیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مقامی گڈریے کے تین بچے بیمار تھے۔ ان بچوں کو اس طرح شفا ملی کہ ان کے سامنے ایک کھیت میں 'کنواری مریم‘ کا ظہور ہوا اور انہوں نے ان 'دو بہنوں اور ایک بھائی کو صحت یاب کرنے کے ساتھ یہ وعدہ کیا کہ وہ ہر ماہ کی تیرہ تاریخ کو ان سے ملنے آیا کریں گی، بشرطیکہ یہ تینوں بہن بھائی اس واقعے کے بارے میں خاموش رہیں‘۔
اس بارے میں کئی مختلف روایات ہیں کہ 'فاطمہ‘ کے ان تینوں بہن بھائیوں کا یہ راز کس طرح منظر عام پر آیا۔ بعد کے عشروں میں کئی سرکردہ مسیحی شخصیات نے اس شہر میں رونما ہونے والے کئی معجزوں کا ذکر بھی کیا۔
یورپ میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ممالک
امریکی ریسرچ سنٹر PEW کے مطابق یورپ میں مسلم آبادی بڑھ رہی ہے۔ اس وقت یورپ میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 4.9 فیصد ہے جبکہ 2050ء تک یہ 7.5 فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔ یورپ کے کن ممالک میں مسلمانوں کی کتنی تعداد آباد ہے؟
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
فرانس: 57.2 لاکھ
تصویر: AP
جرمنی: 49.5 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
برطانیہ: 41.3 لاکھ
تصویر: picture-alliance/empics/D. Dawson
اٹلی: 28.7 لاکھ
تصویر: Getty Images for Les Benjamins/S. Alemdar
ہالینڈ: 12.1 لاکھ
تصویر: AP
اسپین: 11.8 لاکھ
تصویر: picture-alliance/AA/E. Aydin
بیلجیم: 8.7 لاکھ
تصویر: picture-alliance/dpa/F.Sadones
سویڈن: 8.1 لاکھ
تصویر: Getty Images/AFP/A. Wiklund
بلغاریہ: 7.9 لاکھ
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
یونان: 6.2 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
10 تصاویر1 | 10
بعد کے برسوں میں 'فاطمہ‘ شہر کے ان تینوں بچوں کو بعد از مرگ کلیسائی طور پر مقدس بھی قرار دے دیا گیا تھا۔ پھر اس جگہ کی اہمیت اتنی بڑھی کہ مختلف ادوار میں کلیسائے روم کے پوپ بھی اس پرتگالی شہر کے دورے کرتے رہے۔
آج پرتگال کا یہ شہر دنیا بھر میں کیتھولک مسیحی عقیدے کے زائرین کے لیے اہم ترین زیارت گاہوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہاں خاص طور پر بیمار مسیحی شہری شفا کی دعائیں مانگنے جاتے ہیں۔
یورپ کے مشہور مسلمان سیاستدان
جرمن چانسلر کی سیاسی جماعت کے ایک سینئیر اہلکار کے ایک حالیہ بیان نے ہلچل پیدا کر رکھی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ کوئی مسلمان بھی مستقبل کا جرمن چانسلر ہو سکتا ہے۔ اسی تناظر میں یورپ کے کامیاب مسلمان سیاستدانوں پر ایک نظر!
تصویر: Getty Images/AFP/O. Scarff
پاکستانی نژاد برطانوی مسلمہ اور بیرونس
سعیدہ وارثی (سامنے) برطانوی کابینہ میں شامل ہونے والی پہلی مسلمان خاتون تھیں۔ یہ سن دو ہزار دس سے بارہ تک کنزرویٹو پارٹی کی شریک چیئرپرسن بھی تھیں۔ سن دو ہزار اٹھارہ میں وارثی نے وزیر اعظم ٹریزا مے سے مطالبہ کیا کہ وہ عوامی سطح پر قبول کریں کہ ان کی پارٹی کو اسلاموفوبیا کے مسائل کا سامنا ہے۔ ڈاؤننگ سٹریٹ میں ان کی پہلی میٹنگ کے دوران ان کے روایتی پاکستانی لباس کو بھی وجہ بحث بنایا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. Scarff
فرانس اور یورپ کی آواز
مغربی دنیا میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد فرانس میں آباد ہے اور اسلام اس ملک کا دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے۔ لیکن آبادی کے لحاظ سے مسلمانوں کا سیاست میں کردار بہت ہی محدود ہے۔ رشیدہ داتی فرانسیسی سیاست میں نمایاں مقام حاصل کرنے والی چند مسلم شخصیات میں سے ایک ہیں۔ وہ سن دو ہزار سات سے دو ہزار نو تک وزیر انصاف بھی رہیں۔ اس وقت وہ یورپی پارلیمان کی رکن ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Huguen
ایک ڈچ نومسلم
ڈچ سیاستدان جورم وان کلیویرین اسلام کے سخت ناقد تھے۔ انہوں نے اسلام کے خلاف زبردست مہم چلائی تھی۔ لیکن حال ہی میں انہوں نے اعلان کیا کہ وہ ایک اسلام مخالف کتاب لکھنے کے دوران مسلمان ہو گئے تھے۔ ہالینڈ کے اسلام مخالف اور بہت متنازعہ سیاستدان گیئرٹ ولڈرز نے اپنے اس دیرینہ ساتھی کے حوالے سے کہا تھا کہ ان کا اسلام قبول کرنا ایسے ہی ہے، جیسے ایک سبزی خور کو مذبحہ خانے میں ملازمت دے دی جائے۔
تصویر: AFP/Getty Images/ANP/B. Czerwinski
ہالینڈ کا مشہور میئر
احمد ابو طالب سن دو ہزار نو میں ڈچ شہر روٹرڈیم کے میئر بنے تھے۔ وہ ہالینڈ کے اولین تارک وطن میئر تھے۔ ابو طالب ان مسلمانوں کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، جو رہائش کے لیے تو مغرب کا انتخاب کرتے ہیں لیکن آزادی اظہار کے مخالف ہیں۔ نیوز ایجنسی اے این پی کے ایک سروے کے مطابق سن دو ہزار پندرہ میں وہ ہالینڈ کے سب سے مقبول سیاستدان قرار پائے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Maat
اور برطانیہ میں
صادق خان سن دو ہزار سولہ سے لندن کے میئر ہیں۔ وہ سن دو ہزار پانچ سے سن دو ہزار سولہ تک لیبر پارٹی کی طرف سے رکن پارلیمان بھی رہے۔ بریگزٹ مہم میں ان کا موقف یہ تھا کہ یورپی یونین میں ہی رہا جائے۔ انہیں سن دو ہزار سولہ میں سال کا بہترین سیاستدان قرار دیتے ہوئے برٹش مسلم ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ وہ ایک باعمل مسلمان ہیں اور باقاعدگی سے مسجد بھی جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Yui Mok
جرمنی کا ’سیکولر مسلمان‘
ترک نژاد جرمن سیاستدان چَيم اؤزديمير گزشتہ کئی برسوں سے گرین پارٹی کا نمایاں ترین چہرہ ہیں۔ وہ سن دو ہزار آٹھ سے سن دو ہزار اٹھارہ تک اس ماحول پسند جرمن سیاسی جماعت کے شریک سربراہ بھی رہے ہیں۔ وہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے دور اقتدار میں ترکی کے یورپی یونین کا حصہ بننے کے بھی خلاف ہیں۔ وہ خود کو ایک ’سیکولر مسلم‘ کہلوانا پسند کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Hirschberger
6 تصاویر1 | 6
یہ تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ گزشتہ برس تقریباﹰ 6.3 ملین کیتھولک زائرین نے اس شہر کا رخ کیا۔
2019ء میں 'فاطمہ‘ میں زائرین کی یہ تعداد پورے یورپ میں بہت سی دیگر کیتھولک زیارت گاہوں کا رخ کرنے والے زائرین کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ تھی۔ ان زائرین کا تعلق پرتگال کے علاوہ دنیا کے 80 سے زائد دیگر ممالک سے تھا۔
اشتہار
کورونا وائرس کی وبا کے اثرات
ہر سال 13 اکتوبر کو 'فاطمہ‘ کا رخ کرنے والے کیتھولک زائرین کی تعداد اوسطاﹰ تین لاکھ کے قریب ہوتی ہے۔
اس ہفتے 13 اکتوبر کے روز کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے منتظمین نے زائرین کی تعداد بہت کم کر کے صرف چھ ہزار کر دی تھی۔
ان میں سے بھی تقریباﹰ چار ہزار زائرین نے 'فاطمہ‘ کا رخ کیا۔ یہ زائرین 'فاطمہ‘ کے 'باسیلیکا آف روزری‘ نامی اسکوائر میں جمع ہوئے۔ انہوں نے سماجی دوری کی ہدایات کے تحت ایک دوسرے سے فاصلے پر کھڑے ہو کر اجتماعی دعا میں حصہ لیا۔
اس موقع پر انہوں نے مقامی گڈریے کے مقدس قرار دیے گئے تینوں بچوں کو بھی یاد کیا، جو گزشتہ صدی کے اوائل میں اپنے خاندان کے ساتھ 'فاطمہ‘ کے قصبے کی حدود سے باہر ایک گاؤں میں رہتا تھا۔
يورپی مسلمانوں کے بارے ميں عام غلط فہمياں اور حقائق
يورپ ميں کئی سياسی دھڑے اکثر يہ سوال اٹھاتے ہيں کہ کيا اسلام مغربی طرز کی جمہوريت اور زندگی ميں پنپ سکتا ہے؟ ڈی ڈبليو کی اس گيلری ميں جانيے يورپی مسلمانوں کے حوالے سے پائی جانے والی چند غلط فہمياں اور ان کے پيچھے حقائق۔
تصویر: picture-alliance/Godong/Robert Harding
مسلمان مقامی یورپی زبانیں کس حد تک سيکھتے ہيں؟
ہجرت کر کے جرمنی آنے والے بالغوں ميں ہر پانچ ميں سے ايک شخص جرمن زبان پر مکمل عبور رکھتا ہے جبکہ جرمنی ميں پيدا ہونے والے پچھتر فيصد مسلمان بچے جرمن زبان کے ساتھ پرورش پاتے ہيں۔ يورپ کے بيشتر ممالک ميں ہر نسل کے ساتھ زبان سیکھنے کی صلاحيت بہتر ہونے کا رجحان ديکھا گيا ہے۔ جرمنی ميں چھياليس فيصد مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہی زبان ان کی قومی زبان ہے، جس ميں وہ روز مرہ کی گفتگو کرتے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مسلمان غير مسلم افراد کے ساتھ کيسے تعلقات رکھتے ہيں؟
سوئٹزرلينڈ ميں ستاسی فيصد، فرانس اور جرمنی ميں اٹھتہر فيصد اور برطانيہ ميں اڑسٹھ، آسٹريا ميں باسٹھ فيصد مسلمانوں کا دعوی ہے کہ وہ اپنے فارغ اوقات ميں غير مسلم افراد کے ساتھ روابط رکھتے ہيں۔ انضمام کے حوالے سے رکاوٹوں اور سماجی مسائل کے باوجود کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے ساتھ اچھے روابط رکھنے ميں مسلمان پيش پيش ہيں اور يورپ ميں پيدا ہونے والی نسلوں ميں يہ رجحان اور بھی زيادہ واضح ہے۔
تصویر: imago/Westend61
مسلمان خود کو کس حد تک يورپی معاشروں کا حصہ سمجھتے ہيں؟
فرانس ميں چھيانوے فيصد مسلمان خود کو اس ملک کا حصہ سمجھتے ہيں جبکہ جرمنی ميں بھی ايسے افراد کی تعداد لگ بھگ يہی ہے۔ سوئٹزرلينڈ ميں اٹھانوے فيصد لوگ خود کو سوئس معاشرے کا حصہ مانتے ہيں۔ دوسری جانب يہ بات حيران کن ہے کہ مذہبی طور پر مقابلتاً دوستانہ پاليسيوں کے باوجود برطانيہ ميں ايسا محسوس کرنے والوں کی تعداد اناسی فيصد ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Neubauer
يورپی مسلمانوں کی زندگيوں ميں مذہب کتنا اہم ہے؟
يورپ ميں مقيم مسلمان عموماً مذہب کا دامن ہاتھ سے نہيں چھوڑتے۔ برطانيہ ميں چونسٹھ فيصد مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ خود کو مذہبی تصور کرتے ہيں۔ اس کا مطلب وہ پانچ وقت نماز ادا کرتے ہيں اور جمعے کی نماز باجماعت پڑھتے ہيں۔ آسٹريا ميں ايسے مذہبی مسمانوں کا تناسب بياليس فيصد، جرمنی ميں انتاليس فيصد، فرانس ميں تينتيس فيصد اور سوئٹزرلينڈ ميں چھبيس فيصد ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Dean
يورپ ميں مقيم کتنے مسلمان اعلی تعليم حاصل کرتے ہيں؟
اعداد و شمار کے مطابق جرمنی ميں موجود مسلمانوں کی چھتيس فيصد تعداد سترہ برس کی عمر سے پہلے ہی تعليم ترک کر ديتی ہے، يعنی وہ اعلی تعليم حاصل نہيں کرتے۔ آسٹريا ميں ايسے مسلمانوں کی تعداد اور بھی زيادہ یعنی انتاليس فيصد ہے۔ اس کے برعکس فرانس ميں ہر دس مسلمان خاندانوں ميں سے صرف ايک کا بچہ سترہ برس کی عمر کے بعد بھی تعلیم چھوڑ دیتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
مسلمانوں کی يورپی روزگار کی منڈی ميں شراکت کتنی ہے؟
سن 2010 سے قبل جرمنی ہجرت کرنے والے ساٹھ فيصد مسلمان ملازمت کر رہے ہيں جبکہ بيس فيصد پارٹ ٹائم ملازمتيں کر رہے ہيں۔ جرمنی کی روزگار کی منڈی ميں غير مسلموں کی شراکت بھی ايسی ہی ہے۔ جرمنی ميں بہتر مواقع اور ملازمين کی مانگ کے سبب مسلمان مقابلتاً بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہيں۔ اس کے برعکس فرانسيسی مسلمانوں ميں بے روزگاری کی شرح چودہ فيصد ہے جبکہ غير ملسم افراد ميں يہ تناسب صرف آٹھ فيصد بنتا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/U.Baumgarten
مسلمانوں کو کس حد تک مزاحمت کا سامنا ہے؟
آسٹريا ميں ہر چار ميں سے ايک شہری کسی مسلمان کو اپنا پڑوسی بنانا نہیں چاہتا۔ جرمنی ميں بھی انيس فيصد لوگ ايسی ہی رائے رکھتے ہيں۔ برطانيہ ميں اکيس فيصد غير ملسم لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ کسی مسلمان کے گھر کے برابر ميں رہنا پسند نہيں کريں گے جبکہ سوئٹزرلينڈ ميں سترہ اور فرانس ميں چودہ فيصد لوگوں کا بھی ايسا ہی ماننا ہے۔ مسلمانوں کا شمار ان گروپوں ميں ہوتا ہے، جنہيں کئی طرح کی مزاحمت کا سامنا ہے۔
تصویر: AP
’يورپ ميں مسلمان، معاشرے ميں ضم مگر تسليم نہيں‘
اس پکچر گيلری کے ليے معلومات و اعداد و شمار برٹيلسمين فاؤنڈيشن کی حال ہی ميں جاری کردہ ايک رپورٹ سے ليے گئے ہيں۔ یہ رپورٹ سوئٹزرلينڈ، جرمنی، فرانس اور برطانيہ ميں ہزاروں لوگوں سے انٹرويو لینے کے بعد مرتب کی گئی ہے۔