1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فاٹا کی خیبر پختونخوا میں انضمام کی منظوری، اتحادی ناراض

عبدالستار، اسلام آباد
24 مئی 2018

پاکستان کی قومی اسمبلی نے آج ایک آئینی ترمیم کے ذریعے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا بل منظور کر لیا ہے۔ بل کو آئینی ترمیم اکتیس کے تحت منظور کیا گیا۔

Pakistan und Afghanistan Grenzöffnung bei Torkham
تصویر: DW/F. Khan

اس کی حمایت میں دو سو انتیس جب کہ مخالفت میں ایک ووٹ ڈالا گیا۔ مخالفت کا یہ ووٹ پی ٹی آئی کے رکنِ اسمبلی داور کنڈی کی طرف سے ڈالا گیا۔ داور کنڈی کے گزشتہ کئی ماہ سے اپنی پارٹی سے شدید اختلافات چل رہے ہیں۔ جے یو آئی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی، جو دونوں ہی نواز شریف کے قریب سمجھی جاتی ہیں، نے اس بل کے خلاف ایوان سے واک آوٹ کیا۔ اس بل کی وجہ سے حکومت کے یہ سیاسی اتحادی ناراض ہیں۔
پاکستان میں اس وقت سیاسی مخاصمت اپنے عروج پر ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے خیال میں اس ماحول میں سیاسی جماعتوں نے بالغ نظری کا ثبوت دیا اور شہری حقوق سے محروم فاٹا کی عوام کا دیرینہ مطالبہ پورے کرنے میں زبردست یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ تاہم اس بل کے مخالفین فاٹا کے انضمام کو آئین کے خلاف قرار دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اس انضمام کے خلاف بھر پور مہم چلائیں گے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ انضمام ملک کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر کیا گیا ہے۔

بل کی مخالفت کرنے والی پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ جنرل باجوہ نے اس انضمام کے لیے ذاتی طور پر مہم چلائی،’’ہمارے خیال میں سیاسی جماعتوں پر اسٹیبلشمنٹ نے دباو ڈالا کہ وہ اس انضمام کے لئے بل کی حمایت کریں۔ یہ انضمام آئین کے آرٹیکل دو سو سینتالیس کے خلاف ہے۔ فاٹا کی عوام اس انضمام کو نہیں چاہتی۔ اس انضمام کے لئے فاٹا کی عوام سے رائے نہیں لی گئی اور نہ ہی کوئی ریفرنڈم کرایا گیا۔ ہم اس بل کے خلاف عید کے بعد بھر پور مہم چلائیں گے اور عدالتوں میں بھی اس بل کو چیلنج کریں گے۔ ہماری پارٹی بل کی سینیٹ میں بھی بھر پور مخالفت کرے گی۔‘‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ نہیں سمجھتے کہ اس انضمام سے فاٹا کے عوام کو تمام شہری حقوق میسر آجائیں گے اور ماضی میں جس طرح دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ان علاقوں میں بنی ہوئی تھیں، اب ایسا ممکن نہیں ہو سکے گا، تو انہوں نے جواب دیا، ’’سوات، پشاور، کوئٹہ اورکراچی میں بھی عدالتیں ہیں لیکن اس کے باوجود وہاں دہشت گردی بھی ہوتی رہی ہے۔ دہشت گردی کا تعلق ہماری پالیسیوں سے ہے۔جہاں عدالتوں کی عمل داری ہے وہاں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ فاٹا میں ایک منتخب کونسل ہونی چاہیے، جو انتظامیہ اور گورنر کو منتخب کرے اور ان کے ذریعے فاٹا کے عوام پر حکمرانی ہونی چاہیے۔ وہاں کے منتخب نمائندے ہی اس علاقے کو بہتر طور پر چلا سکتے ہیں۔‘‘

فاٹا کو خیبر پختونخوا کا حصہ بنانے کا مخالف کون؟
لیکن سیاسی جماعتوں نے اس انضمام کے حوالے سے اسٹبلشمنٹ کے دباو کے تاثر کو غلط قرار دیا ہے۔ پی پی پی کے رہنما سینیٹر تاج حیدر نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہماری پارٹی پر اس حوالے سے کوئی دباو نہیں تھا اور میں یہ کہتا ہوں کہ جب آپ پر دباو آئے تو آپ اسے مسترد کر دیں۔ آرمی کا دفاعی حوالے سے کوئی نقطہ نظر ہو گا لیکن میرے خیال میں اس میں ان کی کوئی مداخلت نہیں تھی۔ ساری سیاسی جماعتوں نے اس انضمام کے حوالے سے اتفاق کیا تھا۔‘‘

فاٹا میں ہزاروں ’ناپید‘ اساتذہ کو سالانہ اربوں کی ادائیگیاں


تاج حیدر نے اس دعوے کو بھی مسترد کیا کہ یہ انضمام آئین کے خلاف ہے،’’آئین کی آرٹیکل دو سو سینتالیس نئے صوبوں کی تشکیل کے حوالے سے ہے، جس کے لئے متعلقہ صوبائی اسمبلی میں بل دو تہائی اکثریت سے منظور ہونا بھی لازمی ہے لیکن فاٹا کا مسئلہ صوبے کا نہیں ہے۔ اس لئے میں نہیں سمجھتا کہ یہ آئین کے خلاف ہے۔ آئین نے پارلیمان کو ترمیم کا حق دیا ہے اور پارلیمان نے اس حق کو استعمال کیا ہے۔‘‘
نون لیگ نے بھی اس تاثر کو رد کیا کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے دباو کی وجہ سے اس بل کی حمایت کی ہے۔ پارٹی کے رہنما سینیٹر مشاہد اللہ خان نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اگر ہم دباو قبول کرتے تو نواز شریف آج بھی وزیرِ اعظم ہوتے۔ ہم کسی کا دباو قبول نہیں کرتے۔ فاٹا کے عوام ایک نو آبادتی قانون کے تحت رہ رہے تھے اور ان کا یہ دیرینہ مطالبہ تھا کہ انہیں دوسرے پاکستانیوں کی طرح شہری حقوق دیے جائیں۔ حکومت نے ان کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے، انہیں آج یہ حقوق دے دیے ہیں۔ اب وہاں احساس محرومی ختم ہوگا اور دہشت گردوں کی وہاں پناہ گاہیں بھی نہیں بن پائیں گی۔ عوام کے حقوق کی پاسدرای بھی ہوگی کیونکہ اب وہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں آجائیں گے۔ اس کے علاوہ قومی سیاست میں کے پی کا کردار مزید بڑھے گا۔‘‘
واضح رہے کہ فاٹا کے انضمام کے لئے کئی تجزیہ نگار بھی بھر پور مہم چلا رہے تھے۔ قومی اسمبلی کے بعد اب یہ بل کل بروز جمعہ سینیٹ میں پیش ہوگا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں