فاک لینڈ جنگ کے 30 برس
2 اپریل 2012
تین اپریل سن 1982 میں اس وقت کی برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر نے فاک لینڈ پر دوبارہ قبضے کے لیے ایک سو جنگی بحری جہازوں کو روانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے علاوہ ستائیس ہزار فوجیوں کی تعیناتی بھی شامل تھی۔ اس موقع پر سابق برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ ٹھیچر کا کہنا تھا کہ ارجنٹائن کے ساتھ کئی دنوں کی بڑھتی کشیدگی کے بعد، وہاں کی فوجوں نے فاک لینڈ جزائر پر حملہ کر کے ان پر اپنا فوجی کنٹرول قائم کردیا ہے۔ اب ان کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک بڑی ٹاسک فورس کو جلد از جلد روانہ کیا جائے۔
تھیچر کے موقع کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے بروقت فیصلے کی برطانوی عوام نے بھی کھل کر تائید و حمایت کی اور اس کا فائدہ ان کو اگلے عام انتخابات میں کامیابی کی صورت میں ملا تھا۔ مبصرین کے مطابق انہی الیکشن میں بھاری کامیابی کے بعد مارگریٹ تھیچر نے برطانیہ میں اپنے اقتصادی پلان کو عملی شکل دی تھی۔
برطانیہ کے لیے فاک لینڈ جنگ مشکل بھی ہو سکتی تھی کیونکہ ارجنٹائن کی جانب سے برطانوی بحری جہازوں کو غرق کرنے کے ساتھ ساتھ جنگی طیاروں کو مار گرانے کی دھمکی موجود تھی۔ اسی جنگ میں برطانوی جنگی بحری جہاز ایچ ایم ایس شیفیلڈ کو میزائل سے غرق کر دیا گیا تھا۔ اس وقت برطانوی نیوی کی ٹاسک فورس کے کمانڈر ریئر ایڈمرل جیریمی سینڈرز تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ سرد جنگ کے دوران برطانوی نیوی کا سوویت یونین کے تناظر میں جنوبی بحر اوقیانوس میں بھرپور تربیتی عمل مکمل ہو چکا تھا اور ساٹھ کی دہائی میں مشرق بعید سے انخلا کے بعد سے برطانوی نیوی انتہائی پروفیشنل انداز میں ٹریننگ کے عمل سے گزر چکی تھی اور اس کی استعداد ارجنٹائن کی جانب سے پیدا کردہ خطرے سے کہیں زیادہ تھی۔’’
سن 1982 میں ہونے والی فاک لینڈ جنگ کل 74 دنوں پر محیط تھا اور اس کا اختتام چودہ جون سن 1982کے روز ہوا جب ارجنٹائن کی قابض فوج نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ اس جنگ میں 649 ارجنٹائن کے فوجی ہلاک ہوئے جب کہ 255 برطانوی فوجی بھی جاں بحق ہوئے۔
فاک لینڈ پر ملکیتی تنازعے نے اس برس کے اوائل سے پھر سے سر اٹھا لیا ہے۔ مبصرین کے خیال میں اس کی بنیادی وجہ ان جزائر کے قریبی سمندری علاقے سے دستیاب ہونے والے تیل کے بڑے اور وسیع ذخائر ہیں۔ اس کے علاوہ برطانوی فوجی نقل و حرکت کو محسوس کرتے ہوئے ارجنٹائن نے اسے برطانوی نوآبادیاتی عمل کا تسلسل قرار دیا ہے۔ ارجنٹائن اپنے جنوبی امریکی ہمسایہ ملکوں کو بھی قائل کرنے کی کوشش میں ہے کہ وہ فاک لینڈ جزائر کو جانے والے بحری جہازوں پر پابندی عائد کریں۔ بظاہر بیونس آئرس کی جانب سے اس دباؤ کا مقصد برطانیہ کو فاک لینڈ کے معاملے میں بات چیت کے لیے رضامند کرنا خیال کیا جاتا ہے۔
لندن اس مناسبت سے ابھی تک بات چیت کے لیے رضامند دکھائی نہیں دے رہا۔ کیمرون حکومت کا مؤقف ہے کہ وہ جزیرے کی عوام کو استصواب رائے کا حق دینے کے وعدے پر قائم ہے۔
رپورٹ: نینا پوٹس ⁄ عابد حسین
ادارت: افسر اعوان