1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فتح کی حماس کے ساتھ ڈیل قبول نہیں، اسرائیلی وزیر اعظم

عاطف بلوچ25 اپریل 2014

فلسطینی صدر محمود عباس کی طرف سے غیر متوقع طور پر حماس کے ساتھ متحدہ حکومت سازی کی ڈیل کے نتیجے میں اسرائیل نے امریکی ثالثی میں شروع ہونے والے امن مذاکرات کو معطل کر دیا ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی طرف سے جمعرات کے دن جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی صدر محمود عباس کی طرف سے غزہ میں فعال جنگجو حماس کے ساتھ ڈیل ناقابل قبول ہے، ’’آج شام کابینہ نے مشترکہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ اسرائیلی حکومت فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ امن مذاکرات نہیں کرے گی۔‘‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ فلسطینی حکومت ایک ایسی دہشت گرد تنظیم کی طرف ہاتھ بڑھا رہی ہے، جو اسرائیل کی تباہی چاہتی ہے۔ نیتن یاہو نے فلسطینی علاقوں میں نئی متحدہ حکومت سازی کے اعلان کے بعد جمعرات کو کابینہ کی ایک خصوصی میٹنگ بلائی تھی۔ چھ گھنٹے تک جاری رہنے والی اس میٹنگ کے بعد جاری ہونے والے بیان میں مزید کہا گیا کہ اسرائیلی حکومت فلسطینی اتھارٹی کے اس یک طرفہ فیصلے کے بعد متعدد ضروری اقدامات بھی کرے گی۔

حماس اور فتح کے مابین معاہدہ بدھ کے دن طے پایا تھاتصویر: Reuters

ناقدین کے خیال میں یہ تازہ پیشرفت امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی کوششوں سے شروع ہونے والے فلسطینی اسرائیلی امن مذاکرات کے خاتمے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ البتہ اسرائیلی اعلیٰ مذاکرات کار زپی لیونی نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ مذاکرات کی میز پر واپس آنے کے لیے راستہ ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’آج تمام دروازے بند نہیں ہوئے ہیں۔‘‘

اسرائیلی وزیر اعظم نے زور دیا ہے کہ اگر محمود عباس امن مذاکرات جاری رکھنے کے خواہاں ہیں تو انہیں حماس کے ساتھ ڈیل ختم کرنا ہو گی۔ ان کا کہنا ہے کہ فتح تحریک کے رہنما محمود عباس یا تو حماس کے ساتھ ڈیل کر سکتے ہیں یا اسرائیل سے۔ نیتن یاہو کے بقول عباس ایک ہی وقت میں دونوں کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کر سکتے ہیں اور یہ کہ انہیں کسی ایک کا ہی انتخاب کرنا ہو گا۔

دوسری طرف فلسطینی امن مذاکرات کار صائب عریقات نے خبر رساں ادارے اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ حماس اور فتح کے مابین ڈیل فلسطینیوں کا اندرونی معاملہ ہے، ’’اسرائیل کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس داخلی معاملے میں مداخلت کرے۔‘‘

سن 2007ء سے غزہ کا کنٹرول سنبھالے ہوئے حماس تنظیم کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے اس پیشرفت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں اسرائیلی وزیر اعظم کی طرف سے لیے گئے اس فیصلے پر کوئی حیرت نہیں ہوئی ہے، ’’اسرائیل کا یہ مؤقف متوقع تھا۔ یہ قبضہ ہے، وہ (اسرائیل) نہیں چاہتا کہ فلسطینی عوام متحد ہوں۔ وہ ہمیں تقسیم کر کے آگے بڑھنا چاہتا ہے۔‘‘

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھی اس صورتحال پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے جمعرات کے دن محمود عباس کو فون کر کے حماس کے ساتھ ڈیل پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ امن مذاکرات کے لیے پر عزم ہیں۔

دریں اثناء واشنگٹن میں ایک اعلیٰ امریکی اہلکار نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ اگر حماس اور فتح کے مابین متحدہ حکومت سازی کی ڈٰیل پر عملدرآمد کیا جاتا ہے تو امریکی حکومت فلسطینی اتھارٹی کو مہیا کرنے والی امداد پر نظر ثانی کر سکتی ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں