شامی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ میں عالمی رہنماؤں کو بتایا ہے کہ ان کا ملک دہشت گردی کے خاتمے کے ہدف کی طرف بتدریج بڑھ رہا ہے اور گزشتہ چھ برس سے جاری جنگ میں فوجی فتح ’’اب دسترس میں‘‘ ہے۔
اشتہار
ولید المعلم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ہفتہ 23 ستمبر کو اپنے خطاب کے دوران کہا، ’’حلب اور پالمیرا کو آزاد کرانے، دیر الزور کا محاصرہ توڑنے اور شام کے بہت سے حصوں سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ فتح اب قریب ہے۔‘‘
شامی وزیر خارجہ کا جو بشارالاسد کی حکومت میں نائب وزیر اعظم کا عہدہ بھی رکھتے ہیں، مزید کہنا تھا کہ شامی حکومتی فورسز کو اس جنگ میں ان کے کردار کے باعث ہیرو کے طور پر یاد رکھا جائے گا: ’’جب یہ غیر منصفانہ جنگ ختم ہو جائے گی، تو شامی فوج تاریخ میں ایک ایسی فوج کا مرتبہ حاصل کر لے گی جس نے اپنی حامی فورسز اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر شجاعت و دلیری سے اُن دہشت گردوں کو شکست دی جو کئی ممالک سے شام میں آئے۔‘‘
مغربی ممالک کی طرف سے شامی صدر بشارالاسد کی حکومت پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ سفاکیت کا مظاہرہ کر رہی ہے، سویلین کو ہدف بنا رہی ہے اور ممنوعہ کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کر رہی ہے تاہم ولید المعلم نے اپنے خطاب میں ایک بار پھر ان الزامات کو رد کر دیا۔
شام میں 2011ء سے جاری جنگ کے نتیجے میں اب تک ساڑھے تین لاکھ سے زائد شامی ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ 50 لاکھ سے زائد شامی اپنے گھر بار چھوڑ کر مہاجرت اختیار کیے ہوئے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ آئندہ ہفتوں کے دوران شامی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا ایک نیا راؤنڈ کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اب تک اس حوالے سے ہونے والی تمام کوششیں ناکامی سے دو چار ہو چکی ہیں۔ اس حوالے سے بڑی رکاوٹ اپوزیشن کی طرف سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ شامی تنازعے کا ایک ایسا سیاسی عبوری راستہ اختیار کیا جائے جس میں صدر اسد کا حکومت میں رہنے کا کوئی امکان نہ ہو تاہم شامی حکومت ایسے کسی حل کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔
حلب: ایک شاندار شہر تاراج ہوا
جنگ سے پہلے حلب شمالی شام کا ایک بارونق اور ہنستا بستا شہر تھا، جو شام کا اقتصادی مرکز اور سیاحوں میں بے حد مقبول تھا۔ موازنہ دیکھیے کہ کھنڈر بن چکے مشرقی حلب کے کئی مقامات پہلے کیسے تھے اور اب کس حال میں ہیں۔
اموی جامع مسجد پہلے
سن 2010ء میں ابھی اُس باغیانہ انقلابی تحریک نے حلب کی جامع الاموی کے دروازوں پر دستک نہیں دی تھی، جو تب پوری عرب دُنیا میں بھڑک اٹھی تھی۔ یہ خوبصورت مسجد سن 715ء میں تعمیر کی گئی تھی اور یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
اموی جامع مسجد آج
سن 2013ء کی جھڑپوں کے نتیجے میں اس مسجد کو شدید نقصان پہنچا۔ چوبیس مارچ سن 2013ء کو اس مسجد کا گیارہویں صدری عیسوی میں تعمیر ہونے والا مینار منہدم ہو گیا۔ آج یہ مسجد ایک ویران کھنڈر کا منظر پیش کرتی ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حمام النحاسین پہلے
حلب شہر کے قدیم حصے میں واقع اس حمام میں 2010ء کے موسمِ خزاں میں لوگ غسل کے بعد سکون کی چند گھڑیاں گزار رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
حمام النحاسین آج
چھ سال بعد اس حمام میں سکون اور آرام نام کو نہیں بلکہ یہاں بھی جنگ کے خوفناک اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قلعہ پہلے
حلب کا یہ قلعہ دنیا کے قدیم ترین اور سب سے بڑے قلعوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے اندر واقع زیادہ تر عمارات تیرہویں صدی عیسوی میں تعمیر ہوئیں۔
تصویر: Reuters/S. Auger
حلب کا قلعہ آج
ایک دور تھا کہ بڑی تعداد میں سیاح اس قلعے کو دیکھنے کے لیے دور دور سے جایا کرتے تھے۔ اب جنگ کے نتیجے میں اس کا بڑا حصہ تباہ و برباد ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قدیم علاقہ پہلے
چوبیس نومبر 2008ء: حلب شہر کا قدیم حصہ۔ لوگ رنگ برنگی روشنیوں کے درمیان ایک کیفے میں بیٹھے ہیں۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قدیم علاقہ آج
تیرہ دسمبر 2016ء: حلب شہر کا قدیم علاقہ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
شھباء مول (ڈیپارٹمنٹل اسٹور) پہلے
یہ تصویر دسمبر 2009ء کی ہے۔ حلب کے مشہور ڈیپارٹمنٹل اسٹور شھباء مول کی چھت سے کرسمس کے تحائف لٹک رہے ہیں۔ اس پانچ منزلہ ڈیپارٹمنٹل اسٹور کا افتتاح 2008ء میں ہوا تھا اور اس کا شمار ملک کے سب سے بڑے اسٹورز میں ہوتا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
شھباء مول (ڈیپارٹمنٹل اسٹور) آج
آج جو کوئی بھی گوگل میں شھباء مول کے الفاظ لکھتا ہے تو جواب میں اُسے یہ لکھا نظر آتا ہے: ’مستقل طور پر بند ہے۔‘‘ اس اسٹور کو 2014ء میں کی جانے والی بمباری سے شدید نقصان پہنچا تھا۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
قدیم حلب کا ایک خوبصورت بازار پہلے
یہ تصویر 2008ء کی ہے، جس میں قدیم حلب کے ایک بازار کا داخلی دروازہ روشنیوں سے جگمگا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
قدیم حلب کا ایک خوبصورت بازار آج
یہ تصویر دسمبر 2016ء کی ہے، جس میں قدیم حلب کے اس مشہور بازار کا داخلی دروازہ تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
12 تصاویر1 | 12
ولید المعلم نے اسی بات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران دہرایا۔ ان کا کہنا تھا کہ شامی حکومت شام کے مستقبل کے حوالے سے کسی بھی بیرونی مداخلت کو مسترد کرتی ہے۔ المعلم کے مطابق، ’’صرف شامی عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایسے فیصلے کریں، بھلے اس وقت یا مستقبل میں۔‘‘