فرانز کافکا کی دس تماثیل اردو میں، خصوصی سلسلہ: تہیے (6)
8 مارچ 2019
ڈوئچے ویلے اردو کی طرف سے اپنے ادب دوست قارئین کی دلچسپی کے لیے جنوری کے اختتام پر شروع کیے گئے معروف جرمن ادیب فرانز کافکا کی دس بہت مشہور تماثیل کے ہفتہ وار اردو تراجم شائع کرنے کے خصوصی سلسلے کی چھٹی کڑی۔
اشتہار
تہیے (6)
(فرانز کافکا کی ایک تمثیل، جرمن سے براہ راست اردو میں)
خود کو کسی تکلیف دہ حالت سے نکالنا صرف شعوری طور پر ہمت کرنے سے ہی آسان ہو سکتا ہے۔ میں پوری توانائی لگا کر آرام کرسی سے اٹھ کھڑا ہوتا ہوں، میز کا ایک چکر لگاتا ہوں، سر اور گردن کو حرکت دیتے ہوئے ہلکی سی ورزش کرتا ہوں، آنکھوں میں کچھ چمک لاتا ہوں اور پھر آنکھوں کے ارد گرد کے پٹھوں میں ورزش کی خاطر کچھ تناؤ پیدا کرتا ہوں۔
پھر میں اپنے ہر احساس کی نفی کرتے ہوئے ’اے‘ کا استقبال کرتا ہوں، جب ’بی‘ اچانک دندناتا ہوا آ نکلتا ہے تو میں خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے اپنے کمرے میں برداشت بھی کرتا ہوں، پھر ’سی‘ کے گھر میں تمام تر تکلیف کے باوجود، اپنی پوری کوشش کے ساتھ لمبے لمبے گھونٹ بھرتے ہوئے وہ سب کچھ بھی نگل جاتا ہوں جو وہاں کہا جا رہا ہوتا ہے۔
تب اگر ایسا ہوتا بھی رہے، تو ہر اس غلطی کے ساتھ جس سے مکمل طور پر بچا ہی نہیں جا سکتا۔ یہی عمل، چاہے وہ آسان ہو یا مشکل، مسائل کا شکار ہو جاتا ہے اور میں دوبارہ سکڑ کر اپنے ہی دائرے کی پناہ میں لوٹنے پر مجبور ہو جاتا ہوں۔
اس لیے بہترین مشورہ تو یہی ہے کہ ہر چیز کو قبول کر لیا جائے، لیکن اس دوران رویہ ایسا رہے، جیسے اندر کوئی بہت باحجم اور بھاری شے رکھی ہو۔ تب اگر کسی بہاؤ کے ساتھ بہتے جانے کا احساس پیدا ہونے لگے، تو ایسی ہر ترغیب سے بچا جائے، جس کے نتیجے میں کوئی ایک بھی غیر ضروری قدم اٹھایا جا سکتا ہو۔
اس دوران دوسروں کو حیوانوں کی سی نظروں سے دیکھا جائے اور کسی قسم کا پچھتاوا محسوس نہ کیا جائے، مختصر یہ کہ پھر اس ڈراؤنی زندگی کے عفریت میں سے جو کچھ بھی باقی بچے، اس کا گلا اپنے ہاتھوں سے گھونٹ دیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قبر کی طرح کے آخری سکون کو طوالت اور وسعت دی جائے اور اس کے علاوہ کچھ بھی باقی نہ رہنے دیا جائے۔
ایسی کسی حالت کی خاص پہچان ہاتھ کی چھوٹی انگلی بھنوؤں پر پھیرتے رہنا ہوتی ہے۔
مصنف: فرانز کافکا
مترجم: مقبول ملک
گنٹر گراس کی زندگی کے مختلف اَدوار
جرمنی کے اہم ترین ادیبوں میں شمار ہونے والے نوبل انعام یافتہ گنٹر گراس پیر تیرہ اپریل کو ستاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ سولہ اکتوبر 1927ء کو جنم لینے والے گراس کا انتقال شمالی جرمن شہر لیوییک کے ایک ہسپتال میں ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گنٹر گراس کا سوگ
گنٹر گراس دوسری عالمی جنگ کے بعد کے اہم ترین جرمن ادیبوں میں سے ایک تھے۔ سیاسی طور پر سرگرم دانشور کے طور پر وہ کئی نزاعی مباحث کے آغاز کا باعث بنے۔ اُنہوں نے جو بحثیں چھیڑیں، اُن کا تعلق نیشنل سوشلزم، جرمن قوم کے اجتماعی احساسِ جرم اور دورِ حاضر کی سیاست سے ہوا کرتا تھا۔
تصویر: AFP/Getty Images/P. Armestre
ادیب کے طور پر شہرت کا آغاز
1959ء میں اُن کے ناول ’دی ٹِن ڈرم‘ کو عالمی سطح پر شہرت حاصل ہوئی۔ 1979ء میں اس پر فلم بھی بنی۔ 1961ء میں ’کیٹ اینڈ ماؤس‘ اور 1963ء میں ’ڈاگز ایئرز‘ کے ساتھ گراس نے اپنی تین حصوں پر مشتمل ’گڈانسک ٹرایالوجی‘ مکمل کر لی، جس میں جرمن قوم کے اجتماعی احساسِ جرم اور ہٹلر دور کا احاطہ کیا گیا تھا۔
تصویر: ullstein - Tele-Winkler
گنٹر گراس کے لیے ادب کا نوبل انعام
چار ہی سال بعد 1999ء میں گنٹر گراس کو نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا۔ نوبل کمیٹی کی جانب سے کہا گیا کہ گنٹر گراس نے اپنی تحریروں میں تاریخ کے فراموش کردہ چہرے کو بیان کیا ہے اور یہ کہ اُن کے ناول ’دی ٹِن ڈرم‘ کا شمار بیس ویں صدی کی سدا بہار ادبی تخلیقات میں ہوا کرے گا۔
تصویر: AP
مشرقی پرشیا میں لڑکپن کے دن
گراس سولہ اکتوبر 1927ء کو مشرقی پرشیا میں پیدا ہوئے۔ وہ پولینڈ میں واقع مقام گڈانسک میں ایک عام سے گھرانے میں پلے بڑھے۔ اپنے لڑکپن میں وہ ہٹلر کے نوعمروں کے لیے بنائے گئے یونٹ HJ کے رکن رہے۔ اسی یونٹ کے جریدے میں اُن کی ابتدائی کہانیاں شائع ہوئیں۔
تصویر: Getty Images
نازی جماعت کے دستے میں رکنیت
بہت بعد میں اُنہوں نے بتایا تھا کہ گھر والوں کے دباؤ سے بچ نکلنے کے لیے وہ رضاکارانہ طور پر فوج میں بھرتی ہو گئے تھے۔ 1944ء میں سترہ سال کی عمر میں وہ ’وافن ایس ایس‘ میں شامل ہو گئے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر وہ امریکیوں کے جنگی قیدی بن گئے۔
تصویر: Sean Gallup/Getty Images
آرٹسٹ کے طور پر تربیت
جنگ کے بعد انہوں نے پتھر سے مجسمے تخلیق کرنے کی تربیت شروع کی اور شہر ڈسلڈورف میں گرافک اور مجسمہ سازی کی اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مصروف ہو گئے۔ اُن کی رہائش برلن اور پیرس میں بھی رہی اور اُن کے مجسموں اور گرافک شاہکاروں کی نمائشیں بھی ہوئیں۔ وہ عمر بھر فن کے شعبے سے منسلک رہے۔ وہ اپنی کتابوں کے سرورق خود بناتے تھے۔
تصویر: AP
’گروپ سینتالیس‘ میں شمولیت
بیس ویں صدی کے پانچویں عشرے میں گراس کی توجہ زیادہ سے زیادہ ادب کی جانب مبذول ہوئی۔ 1955ء میں وہ ادیبوں کی ایک با اثر جرمن تنظیم ’گروپ سینتالیس‘ کی نظروں میں آئے۔ اسی گروپ کی ایک ادبی نشست میں اُنہوں نے اپنے ایک غیر طبع شُدہ ناول ’دی ٹِن ڈرم‘ میں سے اقتباسات پڑھ کر سنائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سیاسی سرگرمیاں
گراس سیاست کے شعبے میں بھی سرگرمِ عمل رہے اور جرمنی اور پولینڈ کے درمیان دوستی کے لیے کوشاں رہے۔ ساٹھ کے عشرے میں جرمن سوشل ڈیمرکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کی رکنیت حاصل کیے بغیر وہ اس جماعت کی انتخابی مہم میں سرگرم رہے۔ اگرچہ وہ محض 1982ء تا 1992ء اس جماعت کے رکن رہے لیکن اس کی حمایت وہ عمر بھر کرتے رہے۔
تصویر: picture alliance/Dieter Klar
گراس تنقید کی زَد میں
1995ء میں معروف نقاد مارسیل رائش رانیسکی نے گراس کے ناول ’ٹُو فار افیلڈ‘ کو نہ صوف ادبی اعتبار سے بلکہ سچ مُچ اُدھیڑ کر رکھ دیا۔ اس سیاسی ناول میں 1848ء سے لے کر دونوں جرمن ریاستوں کے دوبارہ اتحاد تک کی تاریخ بیان کی گئی تھی تاہم تاریخ کو مبینہ طور پر غلط رنگ میں پیش کرنے کے الزام میں گراس شدید بحث و تمحیص کی زَد میں رہے۔
جرمن تاریخ پر ایک اور شاہکار
2002ء میں گراس نے ایک اور ادبی سنگِ میل عبور کیا۔ یہ تھا اُن کا نیا ناول ’کرَیب واک‘، جسے بے انتہا مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس میں 1945ء میں ممکنہ طور پر نو ہزار انسانوں کے ساتھ غرق ہو جانے والے بحری جہاز ’ولہیلم گُسٹلوف‘ اور مشرقی یورپ سے جرمنوں کو گھر بدر کرنے کا ذکر کیا گیا تھا۔ نقادوں نے گراس کو اتنے مشکل موضوع پر قلم اٹھانے اور واقعات کی انتہائی مؤثر تصویر کشی کے لیے سراہا۔
تصویر: ullstein bild
اعتبار جاتا رہا؟
2006ء میں اُن کی آپ بیتی ’پیلنگ دی اونین‘ نے جرمنی میں ایک نئی نزاعی بحث چھیڑ دی۔ اس کتاب میں اُنہوں نے پہلی مرتبہ یہ اعتراف کیا تھا کہ وہ ہٹلر کے ’وافن ایس ایس‘ یونٹ میں شامل رہے تھے۔ تب ناقدین نے اُن کی اخلاقی دیانت اور اعتبار پر سوالیہ نشان لگا دیے۔
تصویر: picture-alliance/SCHROEWIG
اسرائیل پر تنقید
2007ء میں گراس کی 80 ویں سالگرہ پر اُنہیں ایک بار پھر ایک عظیم ادیب کے طور پر خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ اپریل 2012ء میں اُن کی ایک نظم ’جو کہا جانا چاہیے‘ میں اسرائیل کو ہدفِ تنقید بنایا گیا تھا، جیسے ہی یہ نظم شائع ہوئی، ہر طرف سے گراس پر تنقید شروع ہو گئی۔ اس نظم کی ادبی ساخت کو بھی نشانہ بنایا گیا اور گراس کو سیاسی معاملات سے ناواقفیت اور سامی دشمنی کا بھی الزام دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آخر وقت تک مزاحمت اور تنقید کرتے رہے
دسمبر 2013ء میں جن 562 شخصیات نے ’رائٹرز اگینسٹ ماس سرویلینس‘ کی اپیل پر دستخط کیے، اُن میں گراس بھی شامل تھے۔ اس اپیل میں امریکی خفیہ اداروں کی جانب سے بڑے پیمانے پر جاسوسی کی سرگرمیوں کے خلاف مزاحمت پر ابھارا گیا تھا۔ وہ آخر وقت تک ایک ایسے دانشور رہے، جو اپنے موقف کو نمایاں کرنے کے لیے مزاحمت کرتے اور الجھتے رہے۔ گنٹر گراس پیر تیرہ اپریل کو ستاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔