فرانز کافکا کی دس تماثیل اردو میں، خصوصی سلسلہ: مسافر (7)
14 مارچ 2019
ڈوئچے ویلے اردو کی طرف سے اپنے ادب دوست قارئین کی دلچسپی کے لیے جنوری کے اختتام پر شروع کیے گئے معروف جرمن ادیب فرانز کافکا کی دس بہت مشہور تماثیل کے ہفتہ وار اردو تراجم شائع کرنے کے خصوصی سلسلے کی ساتویں کڑی۔
اشتہار
مسافر (7)
(فرانز کافکا کی ایک تمثیل، جرمن سے براہ راست اردو میں)
میں بجلی سے چلنے والی گاڑی کے آخری حصے میں کھڑا ہوں اور اس دنیا، اس شہر اور اپنے خاندان میں اپنی حیثیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے قطعی بے یقینی کا شکار ہوں۔ میں سرِ راہے بھی یہ نہیں بتا سکتا کہ میں اس ٹرام میں کسی بھی سمت میں کون سا دعویٰ یقین سے کر سکتا ہوں۔
میں تو اس بات کے دفاع میں بھی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ میں یہاں کیوں کھڑا ہوں، کہ میں نے دوران سفر اپنا توازن برقرار رکھنے کے لیے ربر کا سڑیپ پکڑا ہوا ہے، کہ میں اس ٹرام میں کہیں لے جایا جا رہا ہوں، اس بات کے دفاع میں بھی کچھ نہیں کہ پلیٹ فارم پر لوگ ٹرام کو قریب آتے دیکھ کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں، خاموشی سے چلتے جاتے ہیں یا پھر دکانوں کی کھڑکیوں کے سامنے کچھ دیر کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ویسے کسی نے مجھ سے اس دفاع کا مطالبہ تو نہیں کیا۔ لیکن یہ بھی غیر اہم بات ہے۔
ٹرام ایک سٹاپ کے قریب پہنچتی جا رہی ہے۔ ایک لڑکی آ کر سیڑھیوں کے پاس کھڑی ہو گئی، اترنے کے لیے بالکل تیار۔ وہ مجھے اتنا واضح طور پر نظر آ رہی ہے، جیسے میں نے اسے چھو کر دیکھا ہو۔
اس کے اسکرٹ کی چُنٹ بھی ہل نہیں رہی۔ اس نے ایک تنگ بلاؤز پہنا ہوا ہے، جس کا کالر سفید نوک دار لیس سے بنا ہے۔ اس نے سہارے کے لیے اپنے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی ٹرام کی دیوار پر رکھی ہوئی ہے اور اس کے دائیں ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھتری کی نوک ٹرام کی سب سے اوپر سے نیچے والی سیڑھی کو چھو رہی ہے۔
اس لڑکی کا چہرہ بھورا ہے، اس کی ناک دونوں طرف سے تھوڑی سے اندر کو دبی ہوئی، اور اس کی نوک ہلکی سی چوڑی اور گول۔ اس کے سر پر بھورے بال بھی بہت ہیں اور داہنی کنپٹی پر باریک سے بال ہوا کی وجہ سے لہرا رہے ہیں۔ اس کا چھوٹا سا دایاں کان کچھ باہر نکلا ہونے کے بجائے کافی دبا ہوا ہے۔ میں دیکھ سکتا ہوں کیونکہ میں اس کے قریب ہی تو کھڑا ہوں، میں اس کے سیپی جیسے دائیں کان کا پورا پچھلا حصہ اور اس کے نرمہ گوش پر پڑنے والے سائے تک کو دیکھ سکتا ہوں۔
تب میں نے خود سے پوچھا: یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ یہ لڑکی خود اپنی ہی ذات پر حیران نہیں ہے؟ کہ وہ اپنے منہ کو بند رکھے ہوئے ہے اور ایسا کچھ بھی نہیں کہتی، جو اس کی حیرت کا مظہر ہو۔
مصنف: فرانز کافکا مترجم: مقبول ملک
جرمن کہاوتوں پر بنائی گئی منفرد تصاویر
جرمن زبان کی چند ایک منتخب کہاوتوں پر مبنی یہ تصاویر خاص طور پر ڈی ڈبلیو کے لیے بنائی گئی ہیں۔ یہ کہاوتیں آج بھی زبان زد خاص و عام ہیں اور ان کی اہمیت کم نہیں ہوئی ہے۔ کیا آپ کے ہاں بھی اس سے ملتی جُلتی کہاوتیں ہیں؟
تصویر: Antje Herzog
جو خوبصورت بننا چاہتا ہے، اُسے تکلیف اُٹھانا پڑتی ہے
کہاوتوں کے جرمن ماہرین بھی نہیں جان پائے کہ یہ کہاوت کہاں سے آئی ہے لیکن اس کا پیغام انتہائی واضح ہے: خوبصورتی قربانی مانگتی ہے۔ لڑکیاں ماڈل بننے کے لیے بھوک برداشت کرتی ہیں، لوگ جسم پر ٹیٹو بنوانے کے لیے تکلیف سے گزرتے ہیں۔ انگریزی میں ملتا جُلتا محاورہ ہے، ’نو پین، نو گین‘۔
تصویر: Antje Herzog
سب سے پہلے چوہے کسی ڈوبتے جہاز کو چھوڑتے ہیں
قدیم زمانوں میں جب لوگ بحری جہازوں پر سفر کرتے تھے تو نیچے والے حصے میں کوئی شگاف پڑنے کی صورت میں چوہے اوپر آنا شروع ہو جاتے تھے۔ اس سے لوگ یہ ماننا شروع ہو گئے کہ چوہے کسی آنے والے ناخوشگوار واقعے کی پیش گوئی کر سکتے ہیں۔ آج کل یہ کہاوت اُن لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جو مشکل وقت میں کسی ادارے کو چھوڑ کر نکل جاتے ہیں۔
تصویر: DW/A. Herzog/C. Dillon
مچھلی ہمیشہ سر سے خراب ہونا شروع ہوتی ہے
جب مچھلی مرتی ہے تو اُس کا سر سب سے پہلے گلنا سڑنا شروع کر دیتا ہے اور اسی لیے سب سے پہلے بُو بھی اُسی میں سے آتی ہے۔ یہ کہاوت تب بولی جاتی ہے، جب قیادت ہی اپنی کمپنی یا اپنی سیاسی جماعت کو تباہ کرنے کا باعث بننے لگتی ہے۔ جرمنی میں اس کہاوت کو سن 2000ء میں شہرت ملی، جب سابق چانسلر گیرہارڈ شروئیڈر نے یہی کہاوت ایک دوسری جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ کے لیے استعمال کی۔
تصویر: DW/A. Herzog/C. Dillon
انسان اُس شاخ کو نہیں کاٹتا، جس پر وہ بیٹھا ہوتا ہے
اردو میں محاورے کی زبان میں اس سے ملتی جُلتی کہاوت ہے، اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار لینا یا پھر جس تھالی میں کھانا، اُسی میں چھید کرنا۔ مطلب یہ کہ انسان ایسے بہت سے کام کر لیتا ہے، جن کے نتیجے میں اُسے نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ یہ جرمن محاورہ ایسا نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
تصویر: DW/A. Herzog/C. Dillon
بولنا چاندی ہے، خاموشی سونا
اس جرمن کہاوت کے مطابق گفتگو چاندی ہے تو خاموشی سونا ہے۔ جب تک کوئی زبان نہ کھولے، ہم اُس کے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کر پاتے۔ جونہی وہ بولنا شروع کرتا ہے، اُس کی اصلیت ہم پر کھل جاتی ہے۔ لقمان حکیم کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے، جہاں ایک پوری سورۃ اُن سے موسوم ہے۔ اس دانا شخص کے ایک قول کا حوالہ تیرہویں صدی کے مسلمان عالم ابن کثیر نے دیا تھا، جو یہ تھا:’’اگر لفظ چاندی ہیں تو خاموشی سونا ہے۔‘‘
تصویر: DW/A. Herzog, C. Dillon
ایک ہاتھ دوسرے کو دھوتا ہے
مدد کہاں ختم ہوتی ہے اور کرپشن کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ اس جرمن کہاوت کا مفہوم یہ ہے کہ مجرم ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، مثلاً ایک مالدار شخص کسی بدعنوان سیاستدان کو پیسہ دیتا ہے۔ اردو میں اس سے ملتی جُلتی کہاوت کے لیے فارسی کی کہاوت من ترا حاجی بگویم، تُو مرا ملا بگو استعمال کرتے ہیں۔ یہ ضرب المثل تب استعمال ہوتی ہے، جب لوگ ایک دوسرے کی تعریف اس لیے کرتے ہیں کہ اگلا بھی جواب میں تعریفی کلمات کہے۔
تصویر: A. Herzog / C. Dillon
چھت پر بیٹھے کبوتر سے ہاتھ میں آ گئی چڑیا بہتر ہے
اردو میں کہا جاتا ہے کہ ’بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی‘۔ اس جرمن کہاوت میں بھی ہمیشہ زیادہ سے زیادہ کی خواہش کرنے سے خبردار کیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ کہاوت لاطینی زبان و ادب سے آئی ہے، جہاں یہ کہا گیا ہے کہ ہاتھ میں آ گیا پرندہ جنگل میں موجود ہزاروں پرندوں سے بہتر ہے۔ انگریزی میں اس سے ملتی جُلتی کہاوت ہے کہ ہاتھ میں موجود ایک پرندہ جنگل میں موجود دو پرندوں سے بہتر ہے۔
تصویر: DW/A. Herzog/C. Dillon
زیادہ باورچی کھانا خراب کر دیتے ہیں
اس جرمن محاورے کا مطلب سیدھا سادا ہے کہ اگر کسی واضح قیادت کے بغیر زیادہ لوگ کسی منصوبے کو سرانجام دینے کی کوشش کریں گے تو وہ پایہٴ تکمیل کو کم ہی پہنچ پائے گا۔ جرمنی میں کام کی جگہوں پر ایسا اکثر نظر آتا ہے کہ کام خواہ جتنے مرضی لوگ انجام دیں، اُنہیں ہدایات کوئی ایک شخص ہی دیتا ہے۔ اُردو میں ’دو ملاؤں میں مرغی حرام‘ کسی حد تک ملتی جُلتی کہاوت ہے۔
تصویر: Antje Herzog/Conor Dillon
شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر نہیں پھینکنے چاہییں
اس محاورے کی جڑیں جرمن سرزمین میں ہیں اور اس کے ڈانڈے بائبل کے اُس واقعے سے ملتے ہیں، جس میں حضرتِ عیسیٰ نے کہا تھا کہ ایک گناہ گار کو پتھر صرف وہی مارے، جس نے خود کبھی گناہ نہ کیا ہو۔ اسی لیے اس جرمن کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک گویا شیشے کے ایک گھر میں بیٹھا ہوا ہے، ایسے میں دوسروں پر انگلی اٹھانے سے گریز کرنا چاہیے۔
تصویر: Antje Herzog/Conor Dillon
جھوٹ کے پاؤں چھوٹے ہوتے ہیں
یہ محاورہ کئی زبانوں میں پایا جاتا ہے۔ چھوٹے پاؤں سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ چھوٹے قد کے لوگ زیادہ جھوٹ بولتے ہیں۔ مطلب یہی ہے کہ جھوٹ زیادہ دیر تک چل نہیں سکتا، جلد پکڑا جاتا ہے۔ اردو زبان میں تو سرے سے جھوٹ کے پاؤں ہی نہیں ہوتے۔
تصویر: Antje Herzog/Conor Dillon
ہر شخص اپنی قسمت خود بناتا ہے
اس کہاوت کا لفظی مطلب یہ ہے کہ ہر انسان اپنی قسمت خود ’گھڑ کر بناتا‘ ہے۔ اس کہاوت کی جڑیں جرمن زبان و ادب میں نہیں بلکہ پہلی بار یہ کہاوت تین سو قبل مسیح میں ایک رومی سیاستدان نے لاطینی زبان میں کہی تھی۔ مطلب یہ ہے کہ انسان محنت اور کوشش سے جو چاہے، حاصل کر سکتا ہے۔