فرانس کے مطابق عبدل مالک دروک دل مالی میں انسداد دہشت گردی کی ایک کارروائی کے دوران مارا گیا۔ دروک دل شمالی افریقہ میں دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ سے وابستہ تمام گروہوں کا سربراہ تھا۔
اشتہار
فرانسيسی وزير دفاع نے جمعے کی شب اس بات کی تصدیق کی کہ الجزائر سے تعلق رکھنے والے اس جنگجو کو فرانسيسی افواج اور اس کے اتحادیوں نے مالی کے شمالی حصے ميں جمعرات کی شب انسداد دہشت گردی کی ايک کارروائی ميں ہلاک کر ديا۔ فلورنس پارلی کے مطابق اس آپريشن ميں القاعدہ کی شمالی افریقی شاخ کے سربراہ عبدل مالک دروک دل سمیت اس کے کئی دیگر 'قریبی جنگجو‘ بھی مارے گئے۔
پارلی نے مزید بتایا کہ فرانس نے گزشتہ ماہ مئی کے دوران مالی میں شدت پسند گروہ داعش کے ایک سینئر کمانڈر محمد المرابت کو حراست میں لے لیا تھا۔ واضح رہے فرانس کے پانچ ہزار سے زائد فوجی برکينا فاسو، چاڈ، مالی، نائجر اور شمالی افریقہ کے چند ديگر ملکوں ميں تعينات ہيں۔
عبدل مالک دروک دل کون تھا؟
الجزائر سے تعلق رکھنے والا دروک دل شمالی افریقہ میں القاعدہ سے وابستہ تمام گروہوں کی سربراہی کر رہا تھا۔ اس جنگجو نے مغربی افریقہ کی ساحل پٹی میں سرگرم دہشت گرد گروہ جماعت نصرت الاسلام ولمسلمين (جے این آئی ایم) کی باگ ڈور بھی سنبھال رکھی تھی۔
عبدل مالک دروک دل شمالی مالی پر عسکریت پسندوں کے قبضے میں بھی ملوث تھا۔ تاہم سن 2013 میں فرانسیسی فوجی دستوں کی مدد سے اس کے جنگجوؤں کو وہاں سے نکال بھگایا گيا تھا۔ اس سے قبل وہ متعدد دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کا بھی حصہ رہ چکا تھا، جن میں برکینا فاسو کے دارالحکومت میں ایک ہوٹل پر خوفناک حملہ شامل تھا۔ اس حملے میں کم از کم تیس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ سن 2012 میں دروک دل کو الجزائر کے دارالحکومت میں تین بم حملے کرنے کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔
شمالی افریقہ میں فرانس کا کردار
داعش سے منسلک عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ کے لیے افریقہ کے ساحل خطے میں فرانسیسی 'جی فائیو فورس‘ کی تعیناتی کے چھ ماہ بعد ہی شمالی افریقہ میں دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے سربراہ کی ہلاکت کی خبر سامنے آئی ہے۔
فرانس اس خطے کی سابقہ نوآبادیاتی طاقت ہے۔ سات برس قبل داعش کے عسکریت پسندوں کی جانب سے شمالی مالی کے کچھ حصوں پر قبضے کے بعد ہی فرانسیسی افواج تعینات کی گئی تھنں۔ تاہم خطے پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کے خیال میں اس علاقے میں عسکریت پسندوں کی گرفت دوبارہ مضبوط ہونے اور نسلی تشدد کو روکنے میں مشکلات کی وجہ سے یورپی ملک کو غیر مقبولیت کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
ع آ / ع س (اے ایف پی، روئٹرز)
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔