فرانسیسی الیکشن، پہلے مرحلے کے فاتح ماکروں اور لے پین
عاطف بلوچ، روئٹرز
23 اپریل 2017
غیر سرکاری ابتدائی نتائج کے مطابق فرانسیسی صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں اعتدال پسند امیدوار ایمانوئل ماکروں اور دائیں بازو کی خاتون سیاستدان مارین لے پین نے باقی جملہ امیدواروں پر برتری حاصل کر لی ہے۔
اشتہار
آج اتوار کے روز فرانس میں صدارتی انتخابات کے سلسلے میں ہونے والی ووٹنگ کے ابتدائی غیر سرکاری نتائج کے مطابق کل گیارہ امیدواروں میں سے اعتدال پسند صدارتی امیدوار ایمانوئل ماکروں اور نیشنل فرنٹ کی دائیں بازو کی مہاجرت مخالف خاتون سیاستدان مارین لے پین کو سب سے زیادہ انفرادی تائید حاصل ہوئی ہے۔
تئیس اپریل بروز اتوار ہونے والی قومی رائے دہی میں کسی بھی امیدوار کو مطلوبہ پچاس فیصد سے زائد عوامی تائید حاصل نہ ہونے کی وجہ سے اب دوسرے مرحلے کے صدارتی الیکشن میں سات مئی کو حتمی مقابلہ ماکروں اور لے پین کے مابین ہی ہو گا۔ اس انتخابی معرکے کے ایک اور اہم صدارتی امیدوار قدامت پسند فرانسوا فیوں نے اپنی شکست تسلیم کر لی ہے۔ ابتدائی نتائج کے مطابق پہلے مرحلے کی ووٹنگ میں ماکروں کو چوبیس فیصد جبکہ لے پین کو بائیس فیصد ووٹ ملے ہیں۔
یورپی یونین کے رکن اور جرمنی کے ہمسایہ ملک فرانس میں صدارتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں رائے دہی کے لیے آج ملک کے 47 ملین کے قریب رجسٹرڈ ووٹروں کو اپنا ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔
اس الیکشن کے لیے قریب 70 ہزار پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے تھے، جہاں سکیورٹی فرائض کی انجام دہی کے لیے قریب 50 ہزار پولیس اہلکار تعینات تھے۔ اسی مقصد کے لیے قریب سات ہزار فوجی بھی اضافی خدمات انجام دے رہے تھے۔
انتہائی دائیں بازو کے یورپی رہنما اور سیاسی جماعتیں
سست اقتصادی سرگرمیاں، یورپی یونین کی پالیسیوں پر عدم اطمینان اور مہاجرین کے بحران نے کئی یورپی ملکوں کے انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو کامیابی دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن: فراؤکے پیٹری، الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ
جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ کی لیڈر فراؤکے پیٹری نے تجویز کیا تھا کہ جرمن سرحد کو غیرقانونی طریقے سے عبور کرنے والوں کے خلاف ہتھیار استعمال کیے جائیں۔ یہ جماعت جرمنی میں یورپی اتحاد پر شکوک کی بنیاد پر قائم ہوئی اور پھر یہ یورپی انتظامی قوتوں کے خلاف ہوتی چلی گئی۔ کئی جرمن ریاستوں کے انتخابات میں یہ پارٹی پچیس فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
فرانس: مارین لے پین، نیشنل فرنٹ
کئی حلقوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ برطانیہ میں بریگزٹ اور امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے انتہائی دائیں بازو کی فرانسیسی سیاسی جماعت کو مزید قوت حاصل ہو گی۔ سن 1972 میں قائم ہونے والے نیشنل فرنٹ کی قیادت ژاں ماری لے پین سے اُن کی بیٹی مارین لے پین کو منتقل ہو چکی ہے۔ یہ جماعت یورپی یونین اور مہاجرین کی مخالف ہے۔
تصویر: Reuters
ہالینڈ: گیئرٹ ویلڈرز، ڈچ پارٹی فار فریڈم
ہالینڈ کی سیاسی جماعت ڈچ پارٹی فار فریڈم کے لیڈر گیئرٹ ویلڈرز ہیں۔ ویلڈرز کو یورپی منظر پر سب سے نمایاں انتہائی دائیں بازو کا رہنما خیال کیا جاتا ہے۔ مراکشی باشندوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر پر سن 2014 میں ویلڈرز پر ایک مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ اُن کی سیاسی جماعت یورپی یونین اور اسلام مخالف ہے۔ اگلے برس کے پارلیمانی الیکشن میں یہ کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Koning
یونان: نکوس مِشالاولیاکوس، گولڈن ڈان
یونان کی فاشسٹ خیالات کی حامل سیاسی جماعت گولڈن ڈان کے لیڈر نکوس مِشالاولیاکوس ہیں۔ مِشالاولیاکوس اور اُن کی سیاسی جماعت کے درجنوں اہم اہلکاروں پر سن 2013 میں جرائم پیشہ تنظیم قائم کرنے کا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا اور وہ سن 2015 میں حراست میں بھی لیے گئے تھے۔ سن 2016 کے پارلیمانی الیکشن میں ان کی جماعت کو 16 نشستیں حاصل ہوئیں۔ گولڈن ڈان مہاجرین مخالف اور روس کے ساتھ دفاعی معاہدے کی حامی ہے۔
تصویر: Angelos Tzortzinis/AFP/Getty Images
ہنگری: گَبور وونا، ژابِک
ہنگری کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت ژابِک کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سن 2018 کے انتخابات جیت سکتی ہے۔ اس وقت یہ ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ سن 2014 کے پارلیمانی الیکشن میں اسے بیس فیصد ووٹ ملے تھے۔ یہ سیاسی جماعت جنسی تنوع کی مخالف اور ہم جنس پرستوں کو ٹارگٹ کرتی ہے۔ اس کے سربراہ گَبور وونا ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
سویڈن: ژیمی آکسن، سویڈش ڈیموکریٹس
ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن کے بعد سویڈش ڈیموکریٹس کے لیڈر ژیمی آکسن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ یورپ اور امریکا میں ایسی تحریک موجود ہے جو انتظامیہ کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ سویڈش ڈیموکریٹس بھی مہاجرین کی آمد کو محدود کرنے کے علاوہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی مخالف ہے۔ یہ پارٹی یورپی یونین کی رکنیت پر بھی عوامی ریفرنڈم کا مطالبہ رکھتی ہے۔
تصویر: AP
آسٹریا: نوربیرٹ، فریڈم پارٹی
نوربیرٹ ہوفر آسٹریا کی قوم پرست فریڈم پارٹی کے رہنما ہیں اور وہ گزشتہ برس کے صدارتی الیکشن میں تیس ہزار ووٹوں سے شکست کھا گئے تھے۔ انہیں گرین پارٹی کے سابق لیڈر الیگزانڈر فان ڈیئر بیلن نے صدارتی انتخابات میں شکست دی تھی۔ ہوفر مہاجرین کے لیے مالی امداد کو محدود اور سرحدوں کی سخت نگرانی کے حامی ہیں۔
سلوواکیہ کی انتہائی قدامت پسند سیاسی جماعت پیپلز پارٹی، ہمارا سلوواکیہ ہے۔ اس کے لیڈر ماریان کوتلیبا ہیں۔ کوتلیبا مہاجرین مخالف ہیں اور اُن کے مطابق ایک مہاجر بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو ایک مرتبہ جرائم پیشہ تنظیم بھی قرار دیا تھا۔ یہ یورپی یونین کی مخالف ہے۔ گزشتہ برس کے انتخابات میں اسے آٹھ فیصد ووٹ ملے تھے۔ پارلیمان میں چودہ نشستیں رکھتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
8 تصاویر1 | 8
مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے شروع ہو کر شام آٹھ بجے تک جاری رہنے والی اس رائے دہی میں عوام کو صدارتی عہدے کے لیے کل 11 امیدواروں میں سے کسی نہ کسی کی حمایت تو کرنا ہی تھی لیکن جیسا کہ تبصرہ نگاروں کے اندازے بھی تھے، ان انتخابات میں آئندہ اور حتمی مقابلہ اب لے پین اور ماکروں کے مابین ہی ہو گا۔
انتہائی دائیں بازو کی خاتون سیاستدان لے پین کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی تعریف کر چکے ہیں جبکہ 39 سالہ سابقہ سرمایہ کاری بینکار ماکروں ایک لبرل سیاستدان ہیں، جنہیں ان کی انتخابی مہم کے دوران بھی ووٹروں کی غیر متوقع حد تک زیادہ حمایت حاصل ہوئی تھی۔