فرانسیسی جنگی بحری بیڑے پر بھی کورونا کی وبا، 668 سیلر متاثر
16 اپریل 2020
کووِڈ انیس سے بری طرح متاثرہ ملک فرانس میں کورونا وائرس کی وبا اب ایک بہت بڑے جنگی طیارہ بردار بحری بیڑے تک بھی پہنچ گئی ہے۔ اس نیول کیریئر کے عملے کے تقریباﹰ اٹھارہ سو میں سے سات سو کے قریب اہلکار بیمار ہو گئے ہیں۔
اشتہار
فرانس کا شمار دنیا اور یورپ کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جو کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والی بیماری کووِڈ انیس سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ جرمنی کے ہمسایہ اور یورپی یونین کے رکن اس ملک میں کووِڈ انیس کے مریضوں کی اب تک کی تعداد تقریباﹰ ڈیڑھ لاکھ بنتی ہے جبکہ یہ وائرس وہاں 17 ہزار سے زائد افراد کی موت کی وجہ بھی بن چکا ہے۔
پیرس میں فرانسیسی بحریہ کے ایک ترجمان نے آج سولہ اپریل جمعرات کے روز بتایا کہ کورونا وائرس کی وبا نے فرنچ نیوی کے ایک بہت بڑے جنگی طیارہ بردار بیڑے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
چارلس ڈیگال نامی اس بحری بیڑے پر تعینات عملے کے ارکان کی تعداد 1,767 ہے، جن میں سے اب تک کم از کم 668 سیلرز میں کورونا وائرس کی موجودگی کی تشخیص ہو چکی ہے۔
یورپ بھر میں لاک ڈاؤن
نئے کورونا وائرس سے نمٹنے کی خاطر سماجی میل ملاپ سے اجتناب اور سفری پابندیوں کی وجہ سے یورپ میں سیاحت کے ليے مشہور بڑے بڑے شہر بھی سنسان ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Camus
پیرس میں لاک ڈاؤن
فرانسیسی حکومت کی طرف سے گزشتہ جمعرات کو ملکی سطح پر لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں سیاحوں میں مشہور خوابوں کا شہر پیرس بھی بالکل خاموش ہو گیا ہے۔ پیرس کے مقامی باسیوں کو بھی کہہ دیا گیا ہے کہ وہ ضروری کام کے علاوہ گھروں سے نہ نکلیں۔ یہ وہ شہر ہے، جس کے کیفے جنگوں میں بھی کبھی بند نہیں ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Camus
برلن میں خاموشی کا راج
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اتوار کے دن سخت اقدامات متعارف کرائے۔ نئے کورونا وائرس پر قابو پانے کی خاطر نو نکاتی منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ دو سے زیادہ افراد عوامی مقامات پر اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ لوگوں کو کہا گیا ہے کہ وہ کووڈ انیس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر آپس میں ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ رکھیں۔ جرمن عوام اس عالمی وبا سے نمٹنے میں سنجیدہ نظر آ رہے ہیں، اس لیے دارالحکومت برلن بھی خاموش ہو گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schreiber
غیرملکیوں کے داخلے پر پابندی اور سرحدیں بند
اس عالمی وبا پر قابو پانے کے لیے برلن حکومت نے غیر ملکیوں کے جرمنی داخلے پر بھی کچھ پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اس قدم کی وجہ سے یورپ کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں شمار ہونے والے فرینکفرٹ ایئر پورٹ کی رونق کے علاوہ اس شہر کی سڑکوں پر ٹریفک میں بھی خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Probst
باویرین گھروں میں
رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے جرمن صوبے باویریا میں گزشتہ ہفتے ہی لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ نئے کورونا وائرس سے نمٹنے کی خاطر اس صوبے میں ابتدائی طور پر دو ہفتوں تک یہ لاک ڈاؤن برقرار رہے گا۔ یوں اس صوبے کے دارالحکومت ميونخ میں بھی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
تصویر: Imago Images/Zuma/S. Babbar
برطانیہ میں بھی سخت اقدامات
برطانیہ میں بھی تمام ریستوراں، بارز، کلب اور سماجی رابطوں کے دیگر تمام مقامات بند کر دیے گئے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ غیر ضروری سفر اور سماجی رابطوں سے احتراز کریں۔ یوں لندن شہر کی طرح اس کی تاریخی میٹرو لائنز بھی سنسان ہو گئی ہیں۔
تصویر: AFP/T. Akmen
میلان شہر، عالمی وبا کے نشانے پر
یورپ میں کووڈ انیس نے سب سے زیادہ تباہی اٹلی میں مچائی ہے۔ اس ملک میں دس مارچ سے ہی لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ کوششوں کے باوجود اٹلی میں کووڈ انیس میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ پریشانی کا باعث ہے۔ میلان کی طرح کئی دیگر اطالوی شہر حفاظتی اقدمات کے باعث ویران ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Bruno
ویٹی کن عوام کے لیے بند
اٹلی کے شمالی علاقوں میں اس عالمی وبا کی شدت کے باعث روم کے ساتھ ساتھ ویٹی کن کو بھی کئی پابندیاں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ویٹی کن کا معروف مقام سینٹ پیٹرز اسکوائر عوام کے لیے بند کر دیا گیا ہے جبکہ اس مرتبہ مسیحیوں کے گڑھ ویٹی کن میں ایسٹر کی تقریبات بھی انتہائی سادگی سے منائی جائیں گی۔
تصویر: Imago Images/Zuma/E. Inetti
اسپین بھی شدید متاثر
یورپ میں نئے کورونا وائرس کی وجہ سے اٹلی کے بعد سب سے زیادہ مخدوش صورتحال کا سامنا اسپین کو ہے۔ ہسپانوی حکومت نے گیارہ اپریل تک ملک بھر ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ اسپین میں زیادہ تر متاثرہ شہروں مییں بارسلونا اور میڈرڈ شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/X. Bonilla
آسٹریا میں بہتری کے آثار
آسڑیئن حکومت کے مطابق ویک اینڈ کے دوران نئے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے والوں کی شرح پندرہ فیصد نوٹ کی گئی، جو گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔ قبل ازیں یہ شرح چالیس فیصد تک بھی ریکارڈ کی گئی تھی۔ ویانا حکومت کی طرف سے سخت اقدامات کو اس عالمی وبا پر قابو پانے میں اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: AFP/H. Neubauer
9 تصاویر1 | 9
بحری بیڑے کے تقریباً چالیس فیصد سیلرز متاثر
فرانسیسی بحریہ کے ترجمان ایرِک لاوو نے ریڈیو آر ایم سی کو بتایا کہ اب تک کورونا وائرس 'چارلس ڈیگال‘ پر تعینات تقریباً 40 فیصد سیلرز کو متاثر کر چکا ہے۔ ان میں سے 20 کے قریب اہلکار علاج کے لیے ہسپتال میں داخل کرائے جا چکے ہیں اور ان میں سے ایک کی حالت نازک ہے۔
فرانس کتنا حسین ہے؟ ذرا ان تصویروں سے پوچھیے
چودہ جولائی کو فرانس میں قومی دن کا جشن منایا جاتا ہے۔ سن 1789 میں اسی دن اہل فرانس نے باستیل کے جیل خانے کو منہدم کر دیا تھا اور یوں انقلاب فرانس کا آغاز ہوا تھا۔ آئیے فرانس کے حسن پر ایک نظر ڈالیں۔
تصویر: picture alliance/blickwinkel/K. Thomas
پیرس
پیرس کے مشور عالم عجائب گھر لُوور میں مونا لیزا کی پینٹنگ کو سراہتے اور ایفل ٹاور سے فرانسیسی دارالحکومت کا نظارہ کرتے سیاح عجب سی خوشی کے عالم میں ہوتے ہیں۔ پیرس اپنے سیاحوں کو بے شمار قابل دید مقامات کے نظاروں کی دعوت دیتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/R. Julien
پرووانس
لیونڈر کے خوشبو دار کھیتوں، قرون وسطی کے پہاڑی دیہاتوں، چمکتی دھوپ اور ایک خاص روشنی ۔ یہ ہے فرانس کے خوبصورت مقام پرووانس کی تعریف۔ پکاسو اور شیگل جیسے آرٹسٹ یہاں کے حسن سے اتنے متاثر ہوئے کہ یہیں رہ گئے۔
سورج کی دھیمی دھیمی حرارت سینکنے کی خواہش فرانس میں بہت سے لوگوں کو بحیرہ روم کے اس ساحل تک لے آتی ہے۔ کوٹ دا زیور کو عیش و عشرت اور گلیمر کے لیے جانا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/Arco Images
دی الپس
الپس جنوب مشرقی فرانسیسی سرحدی علاقے میں واقع ہے۔ مونٹ بلانک ماسییف پہاڑی سلسلہ دنیا بھر سے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔
تصویر: picture alliance/blickwinkel/P. Royer
پیرے نیز
پیرے نیز کا علاقہ فرانس کے جنوب مغرب میں سپین کی سرحد کے ساتھ ساتھ واقع ہے۔ یہ ہائیکنگ کرنے والوں کے لیے خاص دلچسپی کا حامل ہے۔ کہتے ہیں کہ جو یہاں بائیسکل چلا لے وہ صحیح معنوں میں تندرست تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/T. Muncke
لوئر کی ادی
لوئر فرانس کا سب سے طویل دریا ہے۔ ماسف سینٹرل سے اٹلانٹک تک اس کی لمبائی ایک ہزار بیس کلومیٹر ہے۔ یورپ میں کہیں بھی آپ کو اتنے چھوٹے رقبے میں اتنے زیادہ قلعے نہیں ملیں گے۔ ان میں سے ایک تصویر میں دکھائی دینے والا ’شیتو دا شیمبو‘ نامی یہ معروف قلعہ بھی ہے۔
تصویر: picture alliance/blickwinkel/K. Thomas
برتھانے
فرانس کے مغرب میں برتھانے کا ساحل جنگلی حسن سے مالامال ہے۔ ہمیشہ بدلتے رہنے والا موسم اس علاقے کی خوبصورتی کو مزید متاثر کن بنا دیتا ہے۔ برتھانے فرانس میں دوسرا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا تفریحی مقام ہے۔
تصویر: picture alliance/L. Avers
نورمُن ڈی
یورپ بھر میں سب سے طاقتور لہریں ناورمنڈی میں دیکھی جاتی ہیں۔ ہر سال چند بار یہ جزیرہ پانی سے مکمل طور پر بھر جاتا ہے۔ یہاں قائم مونٹ سینٹ مائیکل فرانس میں سیاحوں کے لیے سب سے زیادہ دلچسپی کا باعث ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Yves
کوٹ درژاں
اس فرانسیسی لفظ کا مطلب ہے ’ چاندی کا ساحل‘ جو بورڈاؤ کے مغرب میں واقع اٹلانٹک کوسٹ کو کہا جاتا ہے۔ سورج کی روشنی میں چمکتی ساحل کی ریت یہاں آنے والوں کے لیے خواب جیسا سماں پیدا کرتی ہے۔
تصویر: picture alliance/D. Karmann
خوشگوار شراب کے لیے انگور کے باغات
فرانس میں اعلی معیار کی شراب تیار کی جاتی ہے جو عالمی سطح پر بہت مقبول ہے۔ فرانس میں وائن بنانے کے چودہ مقامات ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنی انفرادیت رکھتا ہے۔
فرانس کا ’الزس‘ علاقہ اپنے علاقائی کھانوں کی وجہ سے مشہور ہے اور کھانے کے شائقین یہاں جوق در جوق چلے آتے ہیں۔ یہاں کھانا زیادہ مہنگا بھی نہیں اور مقدار میں بھی اچھا خاصا ہوتا ہے۔ سو ہر کسی کو اپنی جیب اور ذائقے کے مطابق کچھ نہ کچھ مل ہی جا تا ہے۔
تصویر: picture alliance/Arco Images
11 تصاویر1 | 11
قبل ازیں کل بدھ پندرہ اپریل کو ملکی مسلح افواج کی نگران فرانسیسی وزارت کی طرف سے بھی یہ تصدیق کر دی گئی تھی کہ طبی ماہرین نے 'چارلس ڈیگال‘ نامی نیول کیریئر کے تقریباﹰ سارے عملے کے کورونا ٹیسٹ مکمل کر لیے تھے۔ اس دوران تقریباﹰ 1800 فوجیوں میں سے 700 کے قریب سیلرز کے ٹیسٹوں کے نتائج مثبت آئے تھے۔
یہ ایئر کرافٹ کیریئر کہاں کہاں گیا تھا؟
فرانسیسی بحریہ کے مطابق یہ بحری بیڑہ 21 جنوری کو مشرقی بحیرہ روم کی طرف روانہ ہوا تھا، جہاں اس کا کام عراق اور شام میں دہشت گرد تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائیوں میں فرانسیسی فوج کی مدد کرنا تھا۔ اس کے بعد 'چارلس ڈیگال‘ کو پہلے بحر اوقیانوس میں اور پھر بحیرہ بالٹک میں تعینات کر دیا گیا تھا۔
بحیرہ بالٹک میں اس فرانسیسی جنگی بیڑے نے متعدد شمالی یورپی ممالک کی بحری فوجوں کے ساتھ مل کر عسکری مشقوں میں شرکت کی تھی۔ لیکن شمالی یورپ سے 'چارلس ڈیگال‘ اپنے مقررہ وقت سے تقریباﹰ دو ہفتے پہلے ہی اس وقت واپس فرانسیسی بندرگاہی شہر تُولَوں لوٹ گیا تھا، جب اس کے عملے کے کئی ارکان میں کورونا وائرس کی موجودگی کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئی تھیں۔
م م / ع ح (روئٹرز، اے ایف پی)
کس ملک کے پاس کتنے طیارہ بردار بحری بیڑے ہیں؟
دنیا میں اب تک 168 طیارہ بردار بحری بیڑے بنائے جا چکے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں محض 19 بحری بیڑے زیر استعمال ہیں۔ پکچر گیلری میں جانیے کس ملک نے کتنے بحری بیڑے تیار کیے اور کتنے آج زیر استعمال ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/Zumapress
تھائی لینڈ
تھائی لینڈ کے پاس ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے جسے 1997 میں تیار کیا گیا تھا۔ یہ بحری بیڑہ اب بھی ملکی بحریہ کے استعمال میں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
ہالینڈ
چالیس کی دہائی کے اواخر میں ہالینڈ نے برطانیہ سے دو طیارہ بردار بحری بیڑے خریدے تھے۔ 1968 میں ان میں سے ایک ارجیٹینا کو فروخت کر دیا گیا تھا جو اب قابل استعمال نہیں ہے۔ دوسرا بحری بیڑہ سن 1971 میں اسکریپ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/arkivi
ارجنٹائن
ہالینڈ سے خریدے گیا بحری بیڑا سن 1969 سے لے کر 1999 تک ارجنٹائن کی بحریہ کے زیر استعمال رہا۔ علاوہ ازیں اے آر اے انڈیپینڈینسیا بحری بیڑا 1959 سے لے کر 1969 تک زیر استعمال رہنے کے بعد اسکریپ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters
برازیل
برازیل کے پاس اس وقت ایک فرانسیسی ساختہ طیارہ بردار بحری بیڑہ موجود ہے جو سن 2000 سے زیر استعمال ہے۔ اس کے علاوہ ساٹھ کی دہائی میں خریدا گیا ایک اور بحری بیڑہ بھی سن 2001 تک برازیل کی بحریہ کا حصہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/ dpa/A. Zemlianichenko
اسپین
خوان کارلوس نامی بحری بیڑہ سن 2010 سے ہسپانوی بحریہ کا حصہ ہے جب کہ ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ریزرو میں بھی موجود ہے۔ جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے دو ہسپانوی بحری بیڑے متروک بھی ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/P. Dominguez
آسٹریلیا
آسٹریلیا کے پاس مختلف اوقات میں تین ایسے جنگی بحری بیڑے تھے، جو لڑاکا طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان میں سے دو پچاس کی دہائی کے اواخر جب کہ تیسرا سن 1982 تک آسٹریلوی بحریہ کے استعمال میں رہے۔
تصویر: picture-alliance/epa/J. Brown
کینیڈا
گزشتہ صدی کے وسط میں کینیڈا کے پاس جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے پانچ بحری بیڑے تھے جنہیں ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اسکریپ کر دیا گیا تھا۔ اس وقت کینیڈا کے پاس ایسا ایک بھی بحری بیڑہ موجود نہیں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/MC3 K.D. Gahlau
بھارت
آئی این ایس وکرمادتیا نامی روسی ساخت کا طیارہ بردار بحری بیڑہ سن 2013 سے بھارتی بحریہ کے استعمال میں ہے۔ جب کہ کوچین شپ یارڈ میں ورکرنت نامی ایک اور بحری بیڑے کی تعمیر جاری ہے۔ ویرات نامی بحری بیڑہ سن 2016 تک استعمال میں رہنے کے بعد اب ریزرو میں شامل کیا جا چکا ہے جب کہ ایک بحری بیڑہ سن 1961 سے لے کر 1997 تک زیر استعمال رہنے کے بعد اسکریپ کیا جا چکا ہے۔
تصویر: Imago/Hindustan Times/A. Poyrekar
روس
اس وقت روسی فوج کے زیر استعمال صرف ایک ایسا بحری بیڑہ ہے جو جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد روس نے نوے کی دہائی کے پہلے پانچ برسوں کے دوران چار طیارہ بردار بحری بیڑوں میں سے تین اسکریپ کر دیے تھے جب کہ ایک کی تجدید کے بعد اسے بھارت کو فروخت کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-lliance/AP Photo
جاپان
دوسری عالمی جنگ سے قبل جاپان کے پاس بیس طیارہ بردار جنگی بحری بیڑے تھے جن میں سے اٹھارہ عالمی جنگ کے دوران امریکی حملوں کے باعث تباہ ہو کر سمندر برد ہو گئے تھے۔ دیگر دو کو جاپان نے سن 1946 میں ڈی کمیشن کرنے کے بعد اسکریپ کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/Handout/P. G. Allen
فرانس
فرانسیسی بحریہ کے تصرف میں اس وقت ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے جب کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے گزشتہ صدی کے اختتام تک کے عرصے میں فرانس نے سات طیارہ بردار بحری بیڑے اسکریپ کر دیے تھے۔
تصویر: dapd
جرمنی
جرمنی نے بیسویں صدی کے آغاز سے لے کر دوسری عالمی جنگ تک کے عرصے کے دوران آٹھ طیارہ بردار بحری بیڑے تیار کرنے کے منصوبے بنائے تھے جو مختلف وجوہات کی بنا پر مکمل نہ ہو سکے۔ اس وقت جرمن بحریہ کے پاس ایک بھی ایسا بحری بیڑہ نہیں ہے جو جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
تصویر: picture alliance/akg-images
برطانیہ
اس وقت برطانوی نیوی کے زیر استعمال کوئی طیارہ بردار بحری بیڑہ نہیں ہے لیکن لندن حکومت گزشتہ چند برسوں سے دو بحری بیڑوں کی تیاری جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ صدی میں برطانیہ کے تصرف میں چالیس ایسے بحری بیڑے تھے جو جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان میں سے چار دوسری عالمی جنگ کے دوران تباہ ہوئے جب کہ دیگر کو اسکریپ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Marine Nationale
اٹلی
اطالوی بحریہ کے پاس اس وقت دو طیارہ بردار بحری بیڑے ہیں جن میں سے ایک سن 1985 سے جب کہ دوسرا سن 2008 سے زیر استعمال ہے۔ اٹلی کا ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ سن 1944 میں ڈوب گیا تھا جب کہ ایک کو پچاس کی دہائی میں اسکریپ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: DW/B. Riegert
چین
چین نے تیرہ مئی 2018 کے روز مکمل طور پر ملک ہی میں تیار کردہ پہلے طیارہ بردار بحری بیڑے کو تجرباتی بنیادوں پر سمندر میں اتارا۔ اس سے قبل چینی بحریہ کے پاس ایک روسی ساختہ طیارہ بردار بحری بیڑہ موجود ہے جسے سن 1998 میں یوکرائن سے خریدا گیا تھا اور اسے بحال کر کے سن 2012 میں قابل استعمال بنا لیا گیا تھا۔
امریکی فوج کے پاس اس وقت دس طیارہ بردار بحری بیڑے زیر استعمال ہیں جب کہ ایک ریزرو میں بھی موجود ہے۔ امریکی بحری بیڑے طیاروں کی پرواز اور لینڈنگ کے حوالے سے بھی نہایت جدید ٹیکنالوجی کے حامل ہیں اور انہیں جوہری توانائی سے چلایا جاتا ہے۔ امریکا گزشتہ صدی کے دوران 56 بحری بیڑے اسکریپ کر چکا ہے۔