1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرانس نے تین طالبان قیدیوں کی رہائی کی مخالفت کر دی

16 اگست 2020

فرانس نے افغان حکام پر زور دیا ہے کہ وہ ان تین طالبان عسکریت پسندوں کو رہا نہ کریں جو فرانسیسی شہریوں کے قتل کے جرم میں مجرم قرار پائے گئے تھے۔ اس بیان سے افغانستان میں ہونے والے اہم مذاکرات میں مزید تاخیر ہوسکتی ہے۔

Afghanistan Kabul Taliban Freilassung
تصویر: Reuters/National Security Council

افغان حکومت نے جمعہ چودہ اگست کو کہا تھا کہ انہوں نے 400 طالبان قیدیوں کی رہائی کا آغاز کر دیا ہے اور یہ دوحہ میں طے پانے والے امریکا - طالبان معاہدے کے تحت امن مذاکرات کے سلسلے میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ اب تک 80 طالبان عسکریت پسند رہا کیے جا چکے ہیں۔

ادھر فرانس نے افغان حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ فرانسیسی شہریوں کو ہلاک کرنے والے طالبان قیدیوں کو رہا نہ کیا جائے۔ فرانسیسی وزارت خارجہ نے ہفتے کو ایک بیان میں کہا کہ فرانس مذاکراتی عمل کی حمایت کے لیے تیار ہے لیکن  فرانسیسی فوجی اور امدادی کارکنوں کو مارنے والے 'دہشتگردوں‘ کو رہائی ہرگز نہیں ملنی چاہیے۔

تصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar

جن طالبان جنگجوؤں کی رہائی کی فرانس نے مخالفت کی تھی انہوں نے فرانسیسی خاتون بیٹینا گوئلار، جو کہ اقوام متحدہ کی ریفیوجی ایجنسی کی ملازمہ تھیں، اور پانچ فرانسیسی فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے: کابل نے طالبان قیدیوں کو رہا کرنا شروع کر دیا

گوئلار کے اہل خانہ نے بھی عسکریت پسندوں کی رہائی کے اقدام کی مذمت کی۔ فرانس کے اس بیان سے طالبان اور افغان حکومت کے مابین مذاکرات میں مزید تاخیر ہوسکتی ہے۔

طالبان کی اہم مانگیں

طالبان قیدیوں کی رہائی کے بارے میں اختلاف رائے نے پہلے ہی مذاکرات میں تاخیر کر دی ہے۔ افغان جیلوں میں قید طالبان عسکریت پسندوں کی رہائی کا مطالبہ، افغان حکومت سے مذاکرات کے لیے طالبان کی اولین شرائط میں شامل تھا۔ امریکا نے طالبان سے امن مذاکرات کے بدلے میں افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا وعدہ کیا تھا۔

تصویر: DW/G. Adeli

دوحہ معاہدے میں یہ شرط عائد کی گئی تھی کہ کابل حکومت 5000 طالبان جنگجوؤں رہا کرے گی اور اس کے بدلے میں افغان حکومت کے 1000 قیدی رہا کیے جائیں گے۔ افغان حکومت زیادہ تر طالبان قیدی رہا کر چکی ہے لیکن وہ سنگین جرائم میں ملوث 400 قیدیوں کی رہائی سے گریزاں تھی۔

مزید پڑھیے: افغان مذاکرات کار اور خواتين کی حقوق کی علم بردار پر ’قاتلانہ حملہ‘

بالآخر گزشتہ ہفتے کے اواخر میں  لویہ جرگہ  میں شامل مندوبین نے سنگین جرائم میں ملوث ان طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کی منظوری دے دی تھی۔

خطرناک قیدی

اگرچہ اس عمل کو طالبان اور افغان حکومت کے مابین امن عمل کے لیے ایک ضروری اقدام سمجھا گیا لیکن یہ ایک بڑی تشویش کا سبب بھی بن گیا۔ کیونکہ، ان زیر حراست 400 قیدیوں میں درجنوں عسکریت پسند طالبان متعدد حملوں میں ملوث رہ چکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق 156 جنگجوؤں کو موت کی سزا سنائی گئی تھی جب کہ دیگر عسکریت پسندوں کو قتل، اغوا، منشیات کی اسمگلنگ جیسے سنگین جرائم کے الزام میں سزائیں سنائی گئی تھیں۔

تصویر: DW/G. Adeli

افغان صدر اشرف غنی پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ یہ عسکریت پسند رہائی کے بعد افغانستان اور دنیا کے لیے ایک خطرہ بن سکتے ہیں۔ اب پیرس حکومت نے کابل حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سنگین جرائم میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جانا چاہیے۔

مزید پڑھیے: طالبان قابل اعتبار نہیں، امریکی تجزیہ کار

لویہ جرگہ نے اس بات پر زور دیا تھا کہ افغان حکام رہا کیے جانے والے جنگجوؤں پر کڑی نظر رکھیں تاکہ وہ مزید حملے نہ کر سکیں۔

ع آ / ش ح (روئٹرز، اے ایف پی)

ریاست سوات کی آنکھوں دیکھی کہانی

05:23

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں