سیمیول پیٹی کے سر قلم ہونے کا واقعہ: مزید چار طلبہ گرفتار
26 نومبر 2020فرانسیسی اسکول ٹیچر سیموئیل پیٹی کے سر قلم کرنے کے واقعے کے سلسلے میں گرفتار ہونے والے چار میں سے تین مشتبہ افراد، جن کی عمریں 13 سے 14 سال کے درمیان ہیں، کو "دہشت گردانہ قتل میں ملوث ہونے" کے الزامات کا سامنا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے پی ایف کے مطابق چوتھا ملزم اُس شخص کی بیٹی ہے جس نے استاد سیموئیل پیٹی کے خلاف آن لائن مہم چلائی تھی۔ کلاس میں شامل نہ ہونے کے باوجود اس لڑکی نے اپنے 'سوک لیسنز‘ کے دوران استاد پیٹی کی طرف سے قابل مذمت بیانات کی رپورٹنگ کی۔ اس لڑکی پر ''گستاخانہ مذمت‘‘ کا الزام لگایا گیا ہے۔
گزشتہ ماہ یعنی اکتوبر میں ایک مسلم دہشت گرد طالب علم نے پیرس کے نواحی علاقے میں واقع ایک اسکول ٹیچر سیمیول پیٹی کو اپنی کلاس میں آزادیٴ رائے کے اظہار پر تعليم دیتے ہوئے فرانسیسی طنزیہ رسالہ چارلی ہیبڈو میں پیغمبرِ اسلام کے متنازعہ خاکے دکھانے پر غصے میں آ کر سر قلم کر کے قتل کر دیا تھا۔ اٹھارہ سالہ نوجوان عبدالاخ انزوروف اپنے استاد کا قتل کر کے اس کا سر تن سے جدا کرنے کے بعد پولیس کی گولی لگنے سے مارا گیا تھا۔
اس واقعے نے فرانس سمیت یورپ بھر میں تشویش اور غم و غصے کی لہر دوڑا دی تھی۔ اس واقعے کے بعد قتل کے سلسلے ميں تين نوجوانوں پر 'دہشت گردانہ جرائم کی سازش‘ کی فرد جرم عائد کر دی گئی تھی۔ تفتیش کاروں کے مطابق قتل کی واردات میں شامل دو ديگر افراد، جن میں سے ایک فرانسیسی اور دوسرا چیچن نژاد ہے، کے قاتل انزوروف کے ساتھ رابطے تھے۔ یہ دونوں مقدمے کے آغاز سے قبل گرفتاری کے بعد سے عدالتی تحویل میں ہیں۔ یاد رہے کہ قاتل کا تعلق بھی روسی علاقے چیچنیا سے تھا اور وہ چھ سال پہلے مہاجرت اختیار کر کے فرانس پہنچا تھا۔ ایک نوجوان لڑکی بھی گرفتار ہے، جو تحویل میں موجود دونوں افراد کے ساتھ رابطے استوار کیے ہوئے تھی۔
فرانس کے انصاف کے اداروں کے حکام سیموئیل پیٹی کے بہیمانہ قتل کے جرم کے سلسلے میں اب 14 مشتبہ افراد سے تفتیش اور پوچھ گچھ کر رہے ہیں اور اس واقعے کو مسلم انتہا پسندی کا ایک جنونی فعل قرار دیا جا رہا ہے۔
دریں اثناء فرانسیسی صدر ایمانوئیل ماکروں نے اس واقعے کے بعد سے فرانس میں اسلامی انتہا پسندانہ سرگرمیوں کے خلاف کریک ڈاؤن سخت اور تیز تر کر دیا ہے جس پر مسلم دنیا کی طرف سے شدید رد عمل بھی سامنے آیا ہے۔
ک م / ع آ/ ایجنسیاں