فرانسیسی پولیس مہاجرین کا جسمانی استحصال کر رہی ہے، آکسفیم
15 جون 2018
برطانوی فلاحی ادارے آکسفیم نے دعویٰ کیا ہے کہ فرانسیسی پولیس اہلکار نابالغ مہاجرین کے جوتوں کے تلوے کاٹنے، انہیں تشدد کا نشانہ بنانے، حراست میں لینے اور زبردستی واپس اٹلی بھیجنے جیسے اقدامات میں ملوث ہیں۔
اشتہار
آکسفیم کی جانب سے فرانسیسی اہلکاروں پر مہاجرین کے استحصال میں ملوث ہونے کے الزامات ایک ایسے وقت عائد کیے گئے ہیں جب اٹلی اور فرانس کے مابین مہاجرین کے بحران کے حوالے سے شدید کشیدگی پائی جاتی ہے۔
جمعے کے روز جاری کردہ آکسفیم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کم عمر مہاجر بچوں کو ملکی حدود سے نکال کر اٹلی بھیجنے اور انہیں حراست میں لیے جانے جیسے اقدامات کر کے فرانس نہ صرف ملکی بلکہ یورپی اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کا بھی مرتکب ہو رہا ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اٹلی اور فرانس کے مابین سرحد پر ’نو مینز لینڈ‘ میں ساڑھے سولہ ہزار سے زائد تارکین وطن موجود ہیں جن میں سے ایک چوتھائی نابالغ مہاجر بچے ہیں۔
جرمنی: جرائم کے مرتکب زیادہ تارکین وطن کا تعلق کن ممالک سے؟
جرمنی میں جرائم سے متعلق تحقیقات کے وفاقی ادارے نے ملک میں جرائم کے مرتکب مہاجرین اور پناہ کے متلاشیوں کے بارے میں اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ اس گیلری میں دیکھیے ایسے مہاجرین کی اکثریت کا تعلق کن ممالک سے تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
1۔ شامی مہاجرین
جرمنی میں مقیم مہاجرین کی اکثریت کا تعلق شام سے ہے جو کل تارکین وطن کا قریب پینتیس فیصد بنتے ہیں۔ تاہم کُل جرائم میں شامی مہاجرین کا حصہ بیس فیصد ہے۔ سن 2017 میں تینتیس ہزار سے زائد شامی مہاجرین مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
2۔ افغان مہاجرین
گزشتہ برس اٹھارہ ہزار چھ سو سے زائد افغان مہاجرین جرمنی میں مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے اور مہاجرین کے مجموعی جرائم ميں افغانوں کا حصہ گیارہ فیصد سے زائد رہا۔
تصویر: DW/R.Shirmohammadil
3۔ عراقی مہاجرین
عراق سے تعلق رکھنے والے مہاجرین جرمنی میں مہاجرین کی مجموعی تعداد کا 7.7 فیصد بنتے ہیں لیکن مہاجرین کے جرائم میں ان کا حصہ 11.8 فیصد رہا۔ گزشتہ برس تیرہ ہزار کے قریب عراقی مہاجرین جرمنی میں مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
4۔ مراکشی تارکین وطن
مراکش سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد مجموعی تعداد کا صرف ایک فیصد بنتے ہیں لیکن جرائم میں ان کا حصہ چار فیصد کے لگ بھگ رہا۔ بی کے اے کے مطابق ایسے مراکشی پناہ گزینوں میں سے اکثر ایک سے زائد مرتبہ مختلف جرائم میں ملوث رہے۔
تصویر: Box Out
5۔ الجزائر سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین
مراکش کے پڑوسی ملک الجزائر سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں میں بھی جرائم کی شرح کافی نمایاں رہی۔ گزشتہ برس چھ ہزار سے زائد مراکشی مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt
6۔ ایرانی تارکین وطن
جرمنی میں جرائم کا ارتکاب کرنے میں ایرانی تارکین وطن چھٹے نمبر پر رہے۔ گزشتہ برس قریب چھ ہزار ایرانیوں کو مختلف جرائم میں ملوث پایا گیا جو ایسے مجموعی جرائم کا ساڑھے تین فیصد بنتا ہے۔
تصویر: DW/S. Kljajic
7۔ البانیا کے پناہ گزین
مشرقی یورپ کے ملک البانیا سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد بھی جرمنی میں جرائم کے ارتکاب میں ساتویں نمبر پر رہے۔ گزشتہ برس البانیا کے ستاون سو باشندے جرمنی میں مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے جب کہ اس سے گزشتہ برس سن 2016 میں یہ تعداد دس ہزار کے قریب تھی۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
8۔ سربین مہاجرین
آٹھویں نمبر پر بھی مشرقی یورپ ہی کے ملک سربیا سے تعلق رکھنے والے مہاجرین رہے۔ گزشتہ برس 5158 سربین شہری جرمنی میں مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے گئے جب کہ اس سے گزشتہ برس ایسے سربین مہاجرین کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زیادہ تھی۔
تصویر: DW/S. Kljajic
9۔ اریٹرین مہاجرین
گزشتہ برس مہاجرین کی جانب سے کیے گئے کل جرائم میں سے تین فیصد حصہ اریٹریا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا تھا جن میں سے پانچ ہزار پناہ گزین گزشتہ برس مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Stache
10۔ صومالیہ کے تارکین وطن
اس ضمن میں دسویں نمبر پر صومالیہ سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور تارکین وطن رہے۔ گزشتہ برس 4844 صومالین باشندوں نے جرمنی میں جرائم کا ارتکاب کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt
11۔ نائجیرین تارکین وطن
گیارہویں نمبر پر بھی ایک اور افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن رہے۔ سن 2017 میں نائجیریا سے تعلق رکھنے والے 4755 پناہ گزین مختلف نوعیت کے جرائم کے مرتکب ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
12۔ پاکستانی تارکین وطن
وفاقی ادارے کی اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس اڑتیس سو پاکستانی شہری بھی جرمنی میں مختلف جرائم میں ملوث رہے جب کہ 2016ء میں تینتالیس سو سے زائد پاکستانیوں نے مختلف جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ مہاجرین کے جرائم کی مجموعی تعداد میں پاکستانی شہریوں کے کیے گئے جرائم کی شرح 2.3 فیصد رہی۔ جرمنی میں پاکستانی تارکین وطن بھی مجموعی تعداد کا 2.3 فیصد ہی بنتے ہیں۔
تصویر: Jodi Hilton
12 تصاویر1 | 12
ان دنوں مہاجرین کے بحران کے حوالے سے روم اور پیرس حکومتوں کے مابین شدید سفارتی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ روم اور پیرس حکومتوں کے مابین سفارتی کشیدگی کا سبب فرانسیسی صدر اور کئی دیگر فرانسیسی رہنماؤں کی جانب سے مہاجرین سے بھرے امدادی بحری جہاز کو اطالوی ساحلوں پر لنگر انداز ہونے کی اجازت نہ دینے کے اطالوی فیصلے کے بعد دیے گئے بیانات بنے تھے۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے بحیرہ روم سے ریسکیو کیے گئے مہاجرین کو اٹلی آنے کی اجازت نہ دینے کے فیصلے پر روم حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس فیصلے کو ’مایوس کن اور غیر ذمہ دارانہ‘ قرار دیا تھا جب کہ ماکروں کی پارٹی کے ترجمان نے کہا کہ اس معاملے میں اٹلی کے اقدامات ’متلی کا باعث‘ بننے والے تھے۔ ان بیانات کے بعد اٹلی نے پیرس حکومت سے سرکاری سطح پر معذرت طلب کی تھی۔
آکسفیم نے اپنی اس تازہ رپورٹ میں فرانس کی حدود میں داخل ہونے والے متعدد مہاجر بچوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان کا ’زبانی اور جسمانی استحصال کیا جاتا ہے اور خوارک اور کمبلوں کے بغیر رات بھر قید میں رکھا جاتا ہے جب کہ انہیں اس دوران ان کے بالغ ورثا تک رسائی بھی حاصل نہیں ہوتی‘۔
اریٹریا سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان مہاجر لڑکی کے بارے میں بتایا گیا کہ فرنچ پولیس اہلکاروں نے اس کے جوتوں کے تلوے کاٹنے اور سم کارڈ چھیننے کے بعد اسے زبردستی اٹلی کی حدود میں بھیج دیا۔ آکسفیم نے اس کے علاوہ بھی سینکڑوں ایسے واقعات کا ریکارڈ جمع کیا ہے جن میں فرانسیسی سکیورٹی حکام مبینہ طور پر سیاسی پناہ کے یورپی اور عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ فرانس نے سن 2015 سے سرحدی نگرانی سخت کر رکھی ہے۔ ڈبلن ضوابط کے تحت تارکین وطن کو اسی یورپی ملک میں پناہ کی درخواست جمع کرانا ہوتی ہے، جس کے ذریعے وہ یورپی یونین کی حدود میں داخل ہوئے۔ تاہم انہیں قوانین کے مطابق نابالغ مہاجر بچے کسی بھی ایسے یورپی ملک میں سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرا سکتے ہیں، جہاں ان کے رشتہ دار مقیم ہوں۔
ش ح / ع س (روئٹرز، ڈی پی اے)
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔