فرانس: استاد کا سر قلم کرنے والا مبینہ حملہ آور کون تھا؟
شمشیر حیدر اے ایف پی کے ساتھ
17 اکتوبر 2020
فرانسیسی پولیس نے پیرس کے نواح میں ایک استاد کا سر کاٹنے والے مبینہ حملہ آور کی شناخت ظاہر کر دی ہے۔ پولیس کے مطابق دہشت گردانہ حملے کا ارتکاب کرنے والا اٹھارہ سالہ چیچن مہاجر تھا۔
اشتہار
پیرس کے نواحی علاقے کانفلاں سینٹ اونورین میں ایک استاد کا سر قلم کرنے والے حملہ آور کی شناخت ظاہر کر دی گئی ہے۔ حملے کے بعد پولیس کی فائرنگ سے مارے جانے والے نوجوان کی عمر اٹھارہ برس تھی اور اس کا تعلق چیچنیا سے تھا۔
پولیس نے مبینہ حملہ آور کی شناخت ظاہر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ وہ چیچنیا سے تعلق رکھنے والا اٹھارہ سالہ پناہ گزین تھا۔ پیرس حکام نے یہ بھی بتایا ہے کہ حملہ آور مقتول استاد کا طالب علم نہیں تھا۔ پولیس نے حملہ آور کا نام نہیں بتایا تاہم مقامی میڈیا کے مطابق اس شخص کا نام عبداللہ اے تھا اور وہ سن 2002 میں ماسکو میں پیدا ہوا تھا۔
سن 1990 کی دہائی میں ہونے والی جنگوں کے باعث ہزاروں چیچن شہری مغربی یورپ آ گئے تھے جن میں سے کئی فرانس میں بھی آباد ہیں۔ فرنچ حکام کے مطابق حالیہ مہینوں کے دوران چیچنیا سے تعلق رکھنے والی فرانسیسی کمیونٹی کی جانب سے پرتشدد واقعات میں بھی اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔
تاہم پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ عبداللہ اے کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں تھا۔
ٹیچر کو قتل کرنے کے بعد عبداللہ اے نے موقع سے فرار ہونے کی کوشش کی تاہم جائے حادثہ سے قریب چھ سو میٹر کے فاصلے پر پولیس نے اسے گھیر لیا۔
پولیس کے مطابق اسے گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن اس کا رویہ جارحانہ تھا اور خبردار کیے جانے کے باوجود عبداللہ اے نے خنجر اور ایئر سافٹ گن نہیں پھینکی اور پولیس کے خلاف جارحانہ اور خطرناک رویہ اختیار کرنے پر پولیس نے اسے گولی مار دی۔ بعد ازاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گیا۔
مارے جانے والا استاد کون تھا؟
فرانسیسی حکام نے مرنے والے اسکول ٹیچر کی شناخت بھی ظاہر کر دی ہے۔ استاد کا نام سیموئل پیتی تھا۔
رپورٹس کے مطابق سیموئل پیتی نے چند روز قبل کلاس میں آزادی اظہار کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے پیغمبر اسلام کے خاکے دکھائے تھے۔
ایک طالب علم کے والد کے مطابق پیتی نے پیغمبر اسلام کے خاکے دکھانے سے قبل مسلمان طالب علموں کو کہا تھا کہ وہ ان کے جذبات مجروح نہیں کرنا چاہتے اس لیے اگر مسلم طالب علم چاہیں تو وہ کلاس سے جا سکتے ہیں۔
تام اس واقعے کے بعد کچھ طلبا کے والدین نے ٹیچر کی شکایت کی تھی۔ اسکول کے طالب علموں اور ان کے والدین کی یونین کی سربراہ روڈریگو آریناس نے بتایا کہ کچھ والدین انتہائی غصے میں تھے۔ سکول انتظامیہ اور یونین نے مل کر معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔
پیتی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اسکول کے باہر جمع طلبا کے والدین نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ مارے جانے والے سیموئل پیتی انتہائی نرم مزاج استاد تھے۔
اشتہار
حملہ آور کے اہل خانہ سے تفتیش جاری
فرانس کی انسداد دہشت گردی کے دفتر استغاثہ کے مطابق اب تک نو افراد حراست میں لیے گئے ہیں اور ان سے تفتیش کی جا رہی ہے۔
گرفتار افراد میں عبداللہ اے کا 17 سالہ بھائی، والدین، دادا اور دادی بھی شامل ہیں۔ دیگر زیر حراست افراد کا تعلق بھی حملہ آور کے سماجی حلقے سے بتایا گیا ہے۔
علاوہ ازیں ذرائع کے مطابق کلاس میں پیغمبر اسلام کے خاکے دکھانے کے بارے میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پوسٹ کرنے والے ایک شخص کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔
انسداد دہشت گردی کے فرانسیسی ادارے کے مطابق حملہ آور کے 'دہشت گرد تنظیموں سے روابط' کے حوالے سے بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
پیغمبر اسلام کے خاکے اور آزادی اظہار سے متعلق بحث
فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں نے اس حملے کو 'مسلم دہشت گردی‘ کا واقعہ قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فرانسیسی قوم اساتذہ کے دفاع کے لیے کھڑی ہے اور 'قدامت پسندی‘ کو جیتنے نہیں دیا جائے گا۔ حملہ آور نے استاد کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر تصویر شیئر کرتے ہوئے صدر ماکروں کے لیے بھی دھمکی آمیز جملے لکھے تھے۔
پیرس میں ایلیزے پیلس سے جاری کردہ بیان کے مطابق مقتول استاد کو قومی سطح پر خراج عقیدت پیش کیا جائے گا تاہم اس بابت تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔
فرانس میں شارلی ایبدو حملے کے بعد سے اب تک آزادی اظہار اور مذہب کے حوالے سیاسی اور سماجی سطح پر بحث جاری ہے۔
صدر ماکروں کی حکومت فرانس میں بڑھتی ہوئی مسلم شدت پسندی کے تدارک کے لیے ایک قانونی بل پر بھی کام کر رہی ہے۔ فرنچ حکام کے مطابق ایسے شدت پسند فرانسیسی جمہوریہ کے اقدار کے منافی اور ایک متوازی معاشرہ قائم کر رہے ہیں۔
رواں برس دہشت گردانہ حملے کے پانچ برس پورے ہونے کے بعد طنزیہ میگزین شارلی ایبدو نے پیغمبر اسلام کے خاکے بھی از سر نو شائع کیے تھے۔
گزشتہ ماہ کے اختتام پر شارلی ایبدو کے پرانے دفتر کے قریب ایک پاکستانی نوجوان نے تیز دھار آلے سے حملہ کر کے دو افراد کو زخمی کر دیا تھا۔ حسن محمود نامی اس حملہ آور کے مطابق اس نے یہ حملہ پیغمبر اسلام کے خاکے شائع کیے جانے کے ردِ عمل میں کیا تھا۔
استاد کا سر کاٹ دینے کے اس بھیانک واقعے کے بعد سابق فرانسیسی صدر مانویل والس نے ملکی میڈیا سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک کے تمام اخبارات شارلی ایبدو میں شائع کردہ خاکوں کو اپنے اخبارات میں بھی شائع کریں۔
پچھلے دس سالوں کے دوران دنيا بھر ميں مسلم، يہودی اور سياہ فام افراد کی برادرياں انتہائی دائيں بازو کے سياسی نظريات کے حامل افراد کے کئی پر تشدد حملوں کا نشانہ بنی ہيں۔ ايسے چند بڑے حملوں کی تفصیلات اس پکچر گيلری میں۔
تصویر: CARLOS OSORIO/REUTERS
پاکستانی نژاد کینیڈین مسلم خاندان کے ارکان پر ٹرک حملہ
کینیڈا کے صوبے اونٹاریو میں ایک شخص نے اپنا پک اپ ٹرک پیدل چلنے والے ایک مقامی مسلم خاندان کے افراد پر چڑھا دیا، جس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک ہو گئے۔ لندن میں پیش آنے والے اس واقعے کا بیس سالہ مشتبہ ملزم حملے کے بعد موقع سے فرار ہو گیا تھا تاہم کچھ دیر بعد اسے گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ پال وائٹ کے مطابق اس جرم کا ارتکاب مسلمانوں سے نفرت کی بنا پر کیا گیا۔
تصویر: CARLOS OSORIO/REUTERS
نيوزی لينڈ، سن 2019: دو مساجد پر دہشت گردانہ حملے
کرائسٹ چرچ ميں جمعہ پندرہ مارچ کے روز کیے گئے دہشت گردانہ حملوں ميں انتہائی دائيں بازو کے ایک دہشت گرد نے، جو ایک آسٹریلوی شہری ہے، دو مساجد میں جمعے کی نماز پڑھنے والے مسلمانوں پر اندھا دھند فائرنگ کر کے پچاس افراد کو ہلاک کر ديا۔ يہ نيوزی لينڈ کی تاريخ میں دہشت گردی کے بد ترين اور سب سے ہلاکت خیز جڑواں واقعات تھے۔
تصویر: picture-alliance/empics/PA Wire/D. Lawson
جرمنی، سن 2019: نئے سال کی آمد پر حملہ
جرمنی کے مغربی شہروں بوٹروپ اور اَيسن ميں اکتيس دسمبر کی رات نئے سال کی آمد کی تقريبات کے دوران ايک پچاس سالہ حملہ آور نے تارکين وطن پر حملے شروع کر ديے۔ اپنی گاڑی کی مدد سے اس حملہ آور نے آٹھ افراد کو زخمی کيا۔ مجرم نے شامی اور افغان خاندانوں کو نشانہ بنايا تھا۔ پوليس نے بعد ازاں تصديق کی کہ حملہ آور غير ملکیوں کو قتل کرنا چاہتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kusch
امريکا، سن 2018: يہوديوں کی عبادت گاہ پر فائرنگ
ستائیس اکتوبر سن 2018 کے روز ايک چھياليس سالہ حملہ آور نے امريکا کے شہر پٹسبرگ ميں يہوديوں کی ايک عبادت گاہ پر حملہ کر کے گيارہ افراد کو قتل اور سات ديگر کو زخمی کر ديا تھا۔ مجرم نے اپنی کارروائی سے قبل ساميت دشمن جذبات کا مظاہرہ بھی کيا تھا اور انٹرنيٹ پر اس ضمن ميں مواد بھی جاری کيا تھا۔ يہ امريکا ميں يہوديوں پر کیا گیا سب سے ہلاکت خیز حملہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Rourke
کينيڈا، سن 2017: کيوبک کی مسجد پر حملہ
کينيڈا کے شہر کيوبک کے اسلامی ثقافتی مرکز پر جنوری 2017 کے اواخر ميں ايک مسلح حملہ آور نے فائرنگ کر کے چھ افراد کو ہلاک اور ايک درجن سے زائد کو زخمی کر ديا تھا۔ مجرم نے مغرب کی نماز کے دوران نمازيوں پر فائرنگ کی تھی۔ بعد ازاں کينيڈا کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو نے اسے مسلمانوں پر ايک ’دہشت گردانہ‘ حملہ قرار ديا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Belanger
برطانيہ، سن 2017: فنسبری پارک مسجد
برطانوی دارالحکومت لندن کے شمالی حصے ميں ايک سينتاليس سالہ حملہ آور نے فنسبری پارک کے قريب واقع مسجد کے قريب کھڑے افراد کو اپنی گاڑی تلے روند ڈالا تھا۔ اس حملے ميں ايک شخص ہلاک اور دس ديگر زخمی ہوئے تھے۔ تمام متاثرين مسلم تھے، جو ماہ رمضان ميں فجر کی نماز کے بعد مسجد سے لوٹ رہے تھے۔ حملہ آور نے بعد ازاں تسليم کيا تھا کہ اس نے يہ کارروائی ’اسلام دشمنی‘ کی وجہ سے کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Augstein
جرمنی، سن 2016: ميونخ ميں فائرنگ کا واقعہ
ايک اٹھارہ سالہ ايرانی نژاد جرمن شہری نے بائيس جولائی سن 2016 کے روز ميونخ کے ايک شاپنگ مال ميں فائرنگ کر کے نو افراد کو ہلاک اور چھتيس ديگر کو زخمی کر ديا تھا۔ بعد ازاں حملہ آور خود بھی مارا گيا تھا۔ پوليس کے مطابق مجرم اجانب دشمنی ميں مبتلا تھا اور نسل پرستانہ رجحانات کا حامل بھی تھا۔ وہ ذہنی دباؤ کا شکار تھا اور اسے اسکول ميں اس کے ساتھی اکثر تنگ کيا کرتے تھے۔
تصویر: Getty Images/J. Simon
امريکا، سن 2015: چارلسٹن کے چرچ ميں قتل عام
امريکا ميں سياہ فام افراد کے چرچ ’ايمانوئل افريقی ميتھوڈسٹ ايپسکوپل چرچ‘ پر سترہ جون سن 2015 کو ايک اکيس سالہ نوجوان نے حملہ کر کے متعدد افراد کو ہلاک کر ديا تھا۔ رياست جنوبی کيرولائنا کے شہر چارلسٹن ميں پیش آنے والے اس واقعے ميں نو افريقی نژاد امريکی شہری اور ايک پادری ہلاک ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/J. Raedle
امريکا، سن 2015: چيپل ہل شوٹنگ
دس فروری سن 2015 کے روز يونيورسٹی کے تین عرب مسلم طلبہ، جو ایک مرد، اس کی بیوی اور اس کی خواہر نسبتی پر مشتمل تھے، ان کے ايک سفيد فام پڑوسی نے قتل کر ديا تھا۔ چھياليس سالہ مجرم خود کو مذہب مخالف قرار دیتا تھا اور وہ ان تینوں مقتولين کو کئی مرتبہ ڈرا دھمکا بھی چکا تھا۔ اس واقعے کے بعد امريکا ميں #Muslimlivesmatter کا ہيش ٹيگ وائرل ہو گیا تھا۔
دائيں بازو کے انتہا پسند آندرس بريوک نے 22 جولائی 2011ء کو دوہرے حملے کرتے ہوئے 77 افراد کو قتل کر ديا تھا۔ پہلے اس نے اوسلو ميں ايک علاقے ميں بم دھماکا کيا جہاں کئی سرکاری دفاتر موجود تھے اور پھر ايک سمر کيمپ ميں طلبہ پر اندھا دھند فائرنگ کی۔ حملے سے قبل بريوک نے اپنا منشور بھی جاری کيا تھا، جس کے مطابق وہ يورپ کے کثير الثقافتی معاشروں اور اس براعظم ميں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے خلاف تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Berit
امريکا، سن 2017: شارلٹس وِل ميں کار سے حملہ
رياست ورجينيا کے شہر شارلٹس وِل ميں نيو نازيوں کی ايک ريلی کی مخالفت ميں احتجاج کرنے والوں پر ايک قوم پرست شخص نے گاڑی چڑھا دی تھی۔ اس حملے ميں ايک عورت ہلاک اور درجنوں ديگر زخمی ہو گئے تھے۔ يہ واقعہ بارہ اگست کے روز پيش آيا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/P.J. Richards
جرمنی، سن 2009: ڈريسڈن کی عدالت ميں عورت کا قتل
مصر سے تعلق رکھنے والی مروا الشربينی کو ڈريسڈن کی ايک عدالت ميں يکم جولائی سن 2009 کو قتل کر ديا گيا تھا۔ ان کا قاتل ايک اٹھائيس سالہ روسی اور جرمن شہريتوں کا حامل ملزم تھا، جس کے خلاف الشربينی نے اپنے قتل سے چند لمحے قبل ہی گواہی دی تھی۔ مجرم نے قبل ازيں الشربينی کو ’دہشت گرد اور اسلام پسند‘ کہا تھا۔ مروا الشربينی کے قتل کو جرمنی ميں ’اسلاموفوبيا‘ کے نتيجے ميں ہونے والا پہلا قتل قرار ديا جاتا ہے۔