عبدالعزیز احمد ایک مرتبہ پھر کَیلے کے نواح میں کھلے آسمان تلے رہ رہا ہے اور وہ ہر روز چینل ٹنل عبور کر کے برطانیہ پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ پیرس حکومت نے کَیلے کیمپ آٹھ ماہ قبل ختم کر دیا تھا۔
اشتہار
گزشتہ برس اکتوبر کے مہینے میں فرانسیسی حکومت نے جب چینل ٹنل کے قریب کَیلے شہر کے نواح میں مہاجرین کے خودساختہ ’جنگل کیمپ‘ کو بلڈوزروں کی مدد سے مسمار کیا تو سترہ سالہ صومالی شہری عبدالعزیز کو بھی وہاں سے نکال کر فرانسیسی شہر غرینے میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ منتقل کر دیا گیا تھا۔
عبدالعزیز نے فرانس میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے درخواست جمع کرا دی لیکن فرانسیسی افسر شاہی اور ملکی پناہ کے پیچیدہ اور سست نظام نے محض چار ماہ بعد ہی اسے فرانس میں پناہ کے حصول سے مایوس کر دیا اور وہ واپس کیَلے آ گیا۔
پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘
تصویر: Iftikhar Ali
11 تصاویر1 | 11
آج کل وہ کَیلے کے نواحی علاقے میں فرانس اور برطانیہ کو ملانے والی زیر سمندر چینل ٹنل کے قریب کھلے آسمان تلے رہ رہا ہے۔ اس کے روز و شب اس شاہراہ سے گزرنے والے تیز رفتار ٹرکوں پر چڑھنے کی کوشش میں اور مقامی پولیس کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنے میں گزرتے ہیں۔ رہائش کے علاوہ اس کے پاس کھانے پینے کا بھی کوئی بندوبست نہیں ہے اور اس کا انحصار سماجی تنظیموں کی جانب سے فراہم کردہ خوراک پر ہے
سماجی تنظیموں اور حکومتی اندازوں کے مطابق کیلے کے نواح میں اس وقت چھ سو سے زائد مہاجرين موجود ہیں۔ ان میں سے کئی ایسے ہیں جو ’جنگل کیمپ‘ میں پہلے بھی رہتے رہے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو پہلی مرتبہ برطانیہ جانے کی خواہش میں کیَلے پہنچے ہیں۔ ان سب کی ایک ہی خواہش ہے کہ وہ کسی بھی طریقے سے برطانیہ پہنچ کر ایک نئی زندگی شروع کر پائیں۔
روئٹرز سے گفت گو کرتے ہوئے عبدالعزیز ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہنے لگا، ’’ہم جانتے ہیں کہ یہ خطرناک کام ہے، لیکن ہمارے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہے کیوں کہ فرانس پناہ کی درخواستوں پر فیصلوں میں تاخیر کر رہا ہے، اسی لیے لوگ یہاں واپس آ رہے ہیں۔‘‘ چینل ٹنل عبور کرنے کے لیے یہ افراد چلتے ہوئے ٹرکوں پر سوار ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور مقامی پولیس انہیں روکنے کی بھرپور کوشش کرتی ہی۔ عبدالعزیز کہنے لگا، ’’یہاں کی پولیس ہمارے ساتھ کافی سخت رویہ رکھتی ہے لیکن اللہ کا شکر ہے میں یوسین بولٹ جیسی رفتار سے بھاگ سکتا ہوں۔‘‘
عبدالعزیز کا ذاتی سامان صرف ایک موبائل اور بٹوے پر مشتمل ہے، جسے وہ بڑی حفاظت سے اپنی جیب میں سنبھال کر رکھتا ہے۔ ایک سماجی تنظیم نے اسے سونے کے لیے پلاسٹک کا ایک سلیپنگ بیگ مہیا کر رکھا ہے۔
کَیلے میں جمع ان تارکین وطن کی حالت زار یورپی یونین کی پناہ سے متعلق مشترکہ ضوابط نہ بنا پانے اور ناکامی کی علامت ہے۔ نو منتخب فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے سیاسی پناہ کی درخواستیں جلد نمٹانے کا وعدہ کیا ہے۔
دوسری جانب اٹلی اور یونان پناہ گزینوں کا بھاری بوجھ برداشت کیے ہوئے ہیں اور یونین کے دیگر ارکان کے رویوں سے نالاں ہو کر اٹلی نے آخر کار اپنے ہاں مزید تارکین وطن کی آمد روک دینے کی دھمکی بھی دے دی ہے جس کے باعث بحیرہ روم میں تارکین وطن کو بچا کر اطالوی ساحلوں پر پہنچانے والی فرانسیسی سماجی تنظیموں کو اب شاید مزید مہاجرین فرانسیسی بندرگاہوں پر لانے پڑیں گے۔