1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرانس: شامی صدر بشار الاسد کے وارنٹ گرفتاری کی توثیق

27 جون 2024

فرانس کی ایک اعلی عدالت نے شام میں کیمیائی حملے کے الزام میں ملک کے رہنما بشار الاسد کے وارنٹ گرفتاری کی توثیق کر دی ہے۔ سن 2013 میں دمشق کے مضافات میں غوطہ میں کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ ہوا تھا۔

صدر بشار الاسد
مغربی طاقتوں کا کہنا تھا کہ صرف شامی حکومتی فورسز ہی اس حملے کی استطاعت رکھتی تھیں اور وہی کر سکتی تھیں۔ تاہم صدر اسد نے اس الزام کی تردید کی اور انہوں نے اس کا الزام باغی جنگجوؤں پر عائد کیاتصویر: SANA/Photoshot/picture alliance

فرانس میں وکلاء کا کہنا ہے کہ ایک اپیل عدالت نے اپنے اہم فیصلے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف جو گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تھا، ملک کی اعلیٰ عدالت نے درست قرار دیا ہے۔

اقوام متحدہ کا شام سے طبی عملے کا انخلا روکنے پر زور

گزشتہ برس نچلی عدالت کے بعض ججوں نے سن 2013 میں شام میں مہلک کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کے سلسلے میں بشار الاسد اور ان کے تین دیگر ساتھیوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا۔

شامی خانہ جنگی چودھویں سال میں داخل، تشدد میں اضافہ

تاہم انسداد دہشت گردی کے پراسیکیوٹرز نے اس وارنٹ کی درستگی کو چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسد کو ایک غیر ملکی سربراہ مملکت کی حیثیت سے استثنیٰ حاصل ہے۔

شامی خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے صدر اسد کا پہلا دورہ چین

واضح رہے کہ شام کے صدر بشار الاسد کیمیائی حملے میں کسی بھی طرح ملوث ہونے سے انکار کرتے رہے ہیں۔

بشارالاسد کی حامی ملیشیا کا مبینہ رہنما جرمنی میں گرفتار

مدعیوں کے وکلاء نے پیرس کورٹ آف اپیل کے فیصلے کو ''تاریخی'' قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ''پہلا موقع ہے جب کسی قومی عدالت نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ایک سربراہ مملکت کو مکمل طور پر ذاتی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔''

امریکہ شام کی عرب لیگ میں دوبارہ شمولیت پر ناراض

واضح رہے کہ فرانس ان ممالک میں شامل ہے جو اپنی عدالتوں میں انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمات دائر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

عدالت نے کیا کہا؟

بدھ کے روز پیرس کورٹ آف اپیل نے کہا کہ اس نے وارنٹ کی درستگی کی تصدیق کر دی ہے۔

عرب اسد کو گلے لگا رہے ہیں، کیا اس سے عام شامیوں کو مدد ملے گی؟

عدالتی بیان میں کہا گیا، ''کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی ایک لازمی اصول کے تحت روایتی بین الاقوامی قانون کا بھی حصہ ہے۔ وہ بین الاقوامی جرائم جو ججز کے پیش نظر ہیں، انہیں سربراہ مملکت کے سرکاری فرائض کا حصہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس طرح سے انہیں اس خودمختاری سے الگ کیا جا سکتا ہے،  جو قدرتی طور پر ان فرائض سے منسلک ہے۔''

اس حملے میں زندہ بچ جانے والے افراد اور سیریئن سینٹر فار میڈیا اینڈ فریڈم آف ایکسپریشن (ایس ایم سی) نے پیرس میں سن 2013 کے حملے کے بارے میں فرانس کے تفتیشی ججوں کے پاس اس بارے میں شکایت درج کرائی تھی۔

فیصلے کے باوجود شام کے صدر اسد کو فرانس میں مقدمے کا سامنا کرنے کا امکان نہیں ہے۔ البتہ ایس ایم سی کے ڈائریکٹر مازن درویش نے کہا کہ ''کیمیائی حملوں کے متاثرین کے لیے انصاف کی جانب یہ ایک اہم  قدم'' ہے۔

مشرقی شام میں متحارب غیرملکی حمایت یافتہ جنگجو کون ہیں؟

انہوں نے مزید کہا، ''یہ ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ سنگین جرائم کے لیے استثنیٰ کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور وہ دور ختم ہو گیا ہے جب استثنیٰ کو بچنے کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔''

شام میں ہونے والے کیمیائی حملے کی روداد؟

گزشتہ ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے شام میں جاری خانہ جنگی کی وجہ سے ملک تباہ ہو چکا ہے، جو 2011 میں صدر اسد کی حکومت کی جانب سے جمہوریت کے حامی پرامن مظاہروں کو طاقت کے ذریعے کچلنے کے رد عمل کے طور پر شروع ہوئی تھی۔

اس تنازعے کی وجہ سے شام میں نصف ملین افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور نصف آبادی کو اپنے گھروں سے بے گھر ہونا پڑا ہے، جن میں تقریباً ساٹھ لاکھ بیرون ملک پناہ لینے والے افراد بھی شامل ہیں۔

اگست 2013 میں دمشق کے مضافات میں اس وقت کے حزب اختلاف کے زیر قبضہ علاقے غوطہ میں کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ ہوا تھا۔

اقوام متحدہ کے ماہرین نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس حملے میں اعصابی ایجنٹ سارین پر مشتمل راکٹ استعمال کیے گئے تھے۔ تاہم اقوام متحدہ سے اس بارے میں کسی کے خلاف کوئی الزام عائد کرنے کو نہیں کہا گیا۔

مغربی طاقتوں کا کہنا تھا کہ صرف شامی حکومتی فورسز ہی اس حملے کی استطاعت رکھتی تھیں اور وہی کر سکتی تھیں۔ تاہم صدر اسد نے اس الزام کی تردید کی اور انہوں نے اس کا الزام باغی جنگجوؤں پر عائد کیا۔

صدر اسد نے بعد میں کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن کی توثیق کی اور شام کے اعلان کردہ کیمیائی ہتھیاروں کو تباہ کرنے پر اتفاق کیا۔ لیکن اقوام متحدہ اور کیمیائی ہتھیاروں کی ممانعت والی تنظیم (او پی سی ڈبلیو) کے تفتیش کاروں نے حکومتی فورسز کو ان متعدد مہلک کیمیائی حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے جو اس کے بعد ہوئے ہیں۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے ایف پی)

آٹھ سال سے جاری شامی خانہ جنگی پر ایک نظر

02:44

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں