ماحولیاتی تحفظ کے لیے سرگرم تنظیموں نے صدر میکروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے تدارک کے لیے مزید اقدامات کریں۔
اشتہار
فرانس کے مختلف شہروں میں اتوار کو دسیوں ہزاروں مظاہرین نے سڑکوں پر مارچ کیا اور صدر ایمانوئل میکروں سے عالمی حدت سے نمٹنے سے متعلق مزید اقدمات کا مطالبہ کیا۔
یہ مظاہرے ماحولیات سے متعلق مجوزہ نئے قانون کے خلاف کیے گئے جو ماہرین کی نظر میں ناکافی ہے۔
اس احتجاج میں متعدد غیر سرکاری تنظیموں، ٹریڈ یونینوں اور طلبہ کارکنان نے حصہ لیا۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ اس کے لیے ملک بھر میں تقریبا 160 پروگرام منعقد کیے گئے جس میں تقریباً سوا لاکھ لوگوں نے حصہ لیا۔ تاہم پولیس کے مطابق احتجاج میں پچاس ہزار سے کم لوگوں نے حصہ لیا۔
پیرس میں "ماحولیات کے قانون = پانچ برس کی مدت میں ناکامی" کے ایک بینر کے تحت بڑی تعداد میں لوگ 'پلیس ڈی لا ریپبلک' کے پاس جمع ہو ئے۔ اس میں شریک ایک کارکن پیٹریکا سامون کا کہنا تھا کہ انہیں میکروں کو دور صدارت سے کافی مایوسی ہو ئی ہے۔
ماحولیات پر میکروں کے وعدے
فرانس کی قومی اسبملی ماحولیات سے متعلق حکومت کے بل کو پہلے ہی منظور کر چکی ہے۔ اس منصوبے میں ان تمام داخلی پروازوں کو بند کرنے کی بات کہی گئی ہے جو ڈھائی گھنٹے یا اس سے کم دورانیے کی ہوں اور جہاں ٹرین سے سفر کیا جا سکتا ہے۔ اس میں زیادہ توانائی خرچ کرنے والی عمارتوں کی بھی از سر نو مرمت کرنے اور گرین توانائی سے آرستہ کاروں کے استعمال کی حوصلہ افزائی کے لیے اقدامات کرنے کی تجاویز بھی موجود ہیں۔
صدر میکروں نے سن 2017 میں اپنی انتخابی مہم کے دوران "گرین اصلاحات" پر ریفرنڈم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم فرانس کے ایک ہفتہ وار جریدے نے اتوار کے روز اطلاع دی ہے کہ اس وعدے کو اب ترک کر دیا گيا ہے۔
فرانسیسی آئین کے مطابق اس طرح کے ریفرنڈم کی منظوری کے لیے پارلیمان کے دونوں ایوانوں کی حمایت ضروری ہے۔ تاہم ایوان بالا یعنی سینیٹ میں کنزرویٹیو جماعت لا ریپبلکنز کی اکثریت ہے اور اس کے ساتھ ماحولیات سے متعلق اصلاحات کو عوام کے سامنے رکھنے کا اب تک کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا ہے۔
اس دوران فرانس کے صدر میکروں نے اسٹراس برگ میں اپنے ایک خطاب کے دوران ریفرنڈم نہ کرانے سے متعلق خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسے، "ترک نہیں کیا جائے گا۔"
بقاء کے خطرے سے دوچار قدرتی خزانے
ایمازون سے بحیرہ مردار تک، کئی انوکھے اور غیرمعمولی قدرتی مناظر کو سیاحت اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث بقاء کا خطرہ لاحق ہے۔
تصویر: picture-alliance/JOKER/W. G. Allgöwer
ایمازون کے جنگلات، زمین کے پھیپڑے
جنوبی امریکا کے نو ممالک کا حصہ یہ جنگلات فقط ماحول سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کم کرنے کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ یہ لاکھوں پودوں اور جنگلی جانوروں کی آماج گاہ بھی ہیں۔ تاہم 2020 ان جنگلات کی کٹائی کے اعتبار سے پچھلے بارہ برس کا بدترین سال رہا۔ ان جنگلات کو شدید خشک سالی کا بھی سامنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Arrevad
دی گریٹ بیریئر ریف، اسی برس باقی ہیں
چار سو اقسام کی کورل، پانچ سو انواع کی مچھلیوں اور پانچ ہزار قسموں کی دیگر آبی حیات کا مسکن گریٹ بیریئر ریف آسٹریلیا کے شمال مشرقی ساحلی حصے کے ساتھ واقع ہے۔ تاہم پانی کے بلند ہوتے درجہ حرارت کی وجہ سے یہاں الجی کی بقاء خطرے میں ہے۔ نصف ریف اب تک ختم ہو چکی ہے۔ 2100 تک اگر ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ بھی درجہ حرارت بڑھتا ہے، تو یہ کورل ریف ختم ہو سکتی ہے۔
تصویر: University of Exeter/Tim Gordon
ڈارون کی جنت خطرے میں
ایکواڈور کے گالاپاگوس جزائر جنوبی امریکی مغربی ساحلوں سے ایک ہزار کلومیٹر دور ہیں اور عالمی ورثہ کہلاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہاں پایا جانے والا متنوع فاؤنا اور فلورا ہے، جو آتش فشانی زمین پر پھلتا پھولتا ہے۔ یہاں کے حیاتیاتی تنوع اور ارتقا ہی نے ڈارون کو متاثر کیا تھا۔ یہ انوکھی قدرتی جنت لیکن اب سیاحت، آلودگی اور دیگر انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے خطرے میں ہے۔
تصویر: imago/Westend61
ہمالیہ، پگھلتے گلیشیئر اور کچرے کے پہاڑ
انیس سو اسی میں پہلی مرتبہ رائن ہولڈ میسنر نے بغیر اضافی اکسیجن لگائے ماؤنٹ ایورسٹ سر کیا تھا۔ تب سے اب تک دنیا کا یہ بلند ترین پہاڑ دس ہزار سے زائد مرتبہ سر کیا جا چکا ہے۔ یہاں بڑی تعداد میں سیاح پہنچتے ہیں اور یہاں کچرے کے انبار چھوڑ جاتے ہیں۔ ہمالیہ کو زمینی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے گلیشیئرز کے پگھلنے کا سامنا بھی ہے۔
تصویر: AFP/Project Possible
یسوعا ٹری نیشنل پارک
کیلی فورنیا کا نیشنل پارک یشوعا درخت کے نام پر ہے، تاہم یہ درخت شاید رواں صدی کے اختتام پر مکمل طور پر غائب ہو جائے اور وجہ ہے بلند ہوتا درجہ حرارت۔ مسلسل خشک سالی کی وجہ سے صحرائی یوکا کا پودا بھی مشکلات کا شکار ہے۔ نسبتاﹰ بلند سطح پر اور قدرے ٹھنڈے ماحول میں موجود یوکا کے پودے بھی بارآوری کے اعتبار سے جیسے بانجھ ہوتے جا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/United-Archives
کِلیمانجارومیں برف نہیں
یہ افریقہ کا سب سے بڑا پہاڑی سلسلہ ہے،جہاں تین آتش فشاں موجود ہیں۔ کیبو کہلانے والا یہ سلسلہ سطح سمندر سے پانچ ہزار آٹھ سو پچانوے تک بلند ہے۔ اس کی سفید چوٹی، سن 1912 تا 2009 تک 85 فیصد برف کھو چکی ہے۔ محققین کے مطابق تنزانیہ کی نشانی کہلانے والی یہ برفانی چوٹی زمینی حدت میں اضافے سے متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
ماچو پیچو، سیاحت کے نشانات
پیرو کا یہ تاریخی مقام ہر برس ڈیڑھ ملین سیاح دیکھتا ہے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے ثقافت یونیسکو تاہم کہتا ہے کہ یہاں کم سیاح جائیں، کیوں کہ لوگوں کے پیروں کے نشانات اس تاریخی ڈھانچے کو عدم استحکام کا شکار کر رہے ہیں۔ سیاحت نے اس علاقے کے ماحول کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔
تصویر: picture-alliance/C. Wojtkowski
مالدیپ، سمندر میں کھوتا ہوا
اگر کوئی کہے کہ مالدیپ کو دیکھ آئیے، جب تک وہ نظر آ رہا ہے، تو سمجھ لیجیے کہ آپ اس ملک کو گم ہو جانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہوائی سفر ماحول کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ زمینی درجہ حرارت میں اضافے کا مطلب ہے سمندری سطح میں اضافہ۔ سمندری سطح ہر سال تین اعشاریہ سات سینٹی میٹر بلند ہو رہی ہے۔ مالدیپ سمندر سے فقط ڈیڑھ میٹر بلند ہے۔
تصویر: DW/R. Richter
نکاراگوا کی جھیل
مستقبل میں چھوٹی کشتیوں کی بجائے وسطی امریکا کی سب سے بڑی جھیل میں بڑے بڑے جہاز چلیں گے۔ وجہ ہے وہ نکوراگوا نہر کا منصوبہ۔ اس نہر کے ذریعے بحیرہء کیریبیئن کو بحرالکاہل سے جوڑا جائے گا۔ ماحولیات کے ماہرین خطرات ظاہر کر رہے ہیں کہ اس سے جھیل کے میٹھے پانی سے جڑے پورے ایکوسسٹم کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بحیرہ مردار کی موت
سطح سمندر سے ساڑھے چار سو میٹر نیچے اور چاروں جانب سے خشکی میں گھرے بحیرہ مردار کو بھی دھیرے دھیرے موت کا سامنا ہے۔ یہ انوکھی نمکین جھیل ختم ہو سکتی ہے۔ اسرائیل اور اردن دریائے اردن کا پانی استعمال کر رہے ہیں اور اس سے بحیرہء مردار کی سطح ہر برس قریب ایک میٹر نیچے جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/JOKER/W. G. Allgöwer
10 تصاویر1 | 10
ماحولیات پر فرانس اور مزید کیا کر رہا ہے؟
فرانس نے کورونا وائرس کے لیے 122 ارب امریکی ڈالر کے امدادی پیکج کا اعلان کیا ہے۔ اس پیکج میں نقصان دہ گیسوں کا اخراج کم کرنے اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ میں مدد کے لیے فنڈز رکھے گئے ہیں۔
سن1990 کی سطح کے مقابلے میں گرین ہاؤس گیسوں کو 2030 تک کم سے کم 55 فیصد تک کم کرنے کے یوروپی یونین کے اہداف کو مزید بہتر بنانے کے پیچھے بھی صدر میکروں کا ہی ہاتھ تھا۔ یہ پہلے کے چالیس فیصد ہدف سے کہیں زیادہ ہے۔
گزشتہ ماہ یورپی یوینین نے 2050 تک ماحولیات کے مسائل سے پوری طرح نجات حاصل کرنے کے ایک معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔