فرانس: مسلم خواتین کا ’برقینی‘ پر پابندی کے خلاف مقدمہ خارج
14 اگست 2016![Deutschland Ganzkörper-Badeanzug für Musliminnen Burkini](https://static.dw.com/image/17082874_800.webp)
پیرس سے اتوار چودہ اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ فرانسیسی شہر کن (Cannes) میں حکام نے تمام ساحلی علاقوں میں مسلم خواتین کی طرف سے ’برقینی‘ کے استعمال پر حال ہی میں جو پابندی عائد کی تھی، اس کے خلاف فرانسیسی مسلم خواتین کا دائر کردہ ایک مقدمہ خارج کر دیا گیا ہے۔
’برقینی‘ کو، جس کے نام کی نسبت برقعے سے ہے، یہ نام ’برقعے‘ اور ’بکینی‘ کے امتزاج کے طور پر دیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا سوئمنگ سوٹ ہوتا ہے، جسے عام طور پر باپردہ مسلمان عورتیں سوئمنگ کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ یہ سوئنگ سوٹ کسی بھی خاتون کے پورے جسم اور سر کو ڈھانپ دیتا ہے۔
یہ مقدمہ فرانسیسی مسلم خواتین کے ایک ایسے گروپ کی طرف سے دائر کیا گیا تھا، جس کا نام ’فرانس میں اسلاموفوبیا کے خلاف اجتماعی سوچ‘ ہے۔
اس گروپ کے ایک وکیل نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ کل ہفتہ تیرہ اگست کو ایک عدالت نے ’برقینی‘ پر پابندی کے خلاف دائر کردہ مقدمہ خارج تو کر دیا لیکن اس فیصلے کے خلاف اپیل کی جائے گی۔
یہ فیصلہ کن شہر کے قریب ایک اور شہر نیس کی ایک عدالت نے سنایا، جس کے بارے میں مقدمہ دائر کرنے والی خواتین کے وکیل صفین گوئز گوئز نے ٹیلی فون پر بتایا، ’’عدالت نے یہ مقدمہ کسی جرح کے بغیر ہی خارج کر دیا۔‘‘
گوئز گوئز نے کہا کہ مقامی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف ’کونسل آف اسٹیٹ‘ میں اپیل کی جائے گی، جو فرانس میں انتظامی نوعیت کے قانونی معاملات میں فیصلہ کرنے والی اعلیٰ ترین عدالت ہے۔
مسلم خواتین کی طرف سے کن اور اس کے نواحی ساحلی علاقوں میں ’برقینی‘ پہننے پر عائد پابندی کو درست قرار دینے کا عدالتی فیصلہ اس وقت سنایا گیا جب کل ہفتے ہی کے روز فرانسیسی اخبار ’نیس ماتیں‘ (Nice Matin) نے یہ انکشاف کیا تھا کہ سیاحوں کے پسندیدہ فرانس کے اسی ساحلی علاقے کے ایک اور شہر ’ویلےنیف لُوبے‘ (Villeneuve-Loubet) کی انتظامیہ نے بھی اس شہر میں ’برقینی‘ کے استعمال کو ممنوع قرار دے دیا ہے۔
فرانس میں اس وقت موسم گرما کی تعطیلات کا سالانہ سیزن اپنے عروج پر ہے جبکہ سماجی طور پر وہاں حال ہی میں مسلم انتہا پسندوں کی طرف سے پہلے نیس شہر میں اور پھر ایک کیتھولک چرچ پر کیے جانے والے حملوں کے بعد سے گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ ان حملوں میں قریب 80 افراد مارے گئے تھے۔