فرانس افریقہ کے صحرا میں ایک دہائی سے جنگ کیوں کر رہا ہے؟
18 فروری 2022
فرانس اور اس کے عسکری اتحادی تقریباً ایک دہائی تک افریقی مسلمان باغیوں سے لڑنے کے لیے مالی کو ایک اڈے کے طور پر استعمال کرنے کے بعد اب اِسے چھوڑ رہے ہیں۔ فرانس یہاں کیوں آیا اور اسے کیا قیمت چکانا پڑی؟
اشتہار
مالی میں طوراق یا طوراگ نامی قبائل ایک عرصے سے حکومت مخالف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔ سن 2012ء میں ایسا ہوا کہ القاعدہ کے شمالی افریقی ونگ ( اے کیو آئی ایم) کے اراکین نے 'طوراق بغاوت کو تقریبا ہائی جیک‘ کر لیا۔
اس وقت فرانسیسی فورسز نے ان کا مقابلہ کیا اور ان باغیوں کو پسپا کر دیا۔ تاہم سن 2015ء میں مقامی طوراق اور جہادی باغیوں نے خود کو دوبارہ منظم کیا اور مالی کے شمال اور وسط میں دوبارہ حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔
سن 2017ء میں القاعدہ کے شمالی افریقی ونگ نے دیگر جہادی گروپوں کے ساتھ مل کر ایک نیا اتحاد قائم کیا، جس کا نام 'جماعت نصر الاسلام و المسلمین (جے این آئی ایم)‘ رکھا گیا۔ اسی طرح سن 2015ء میں ہی ایک دوسرا جہادی گروہ منظرعام پر آیا اور اُس نے 'اسلامک اسٹیٹ‘ سے اتحاد کر لیا۔ اس کا نام 'اسلامک اسٹیٹ ان دا گریٹر صحارا (آئی ایس جی ایس)‘ رکھا گیا۔
یہ سبھی گروپ اب مالی، برکینا فاسو اور نائجر کے متعدد علاقوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر ان کے زیر کنٹرول رقبہ جرمنی کے رقبے سے بھی بڑا ہے۔
ان گروپوں کے خطے پر اثرات؟
جن علاقوں میں یہ مسلح گروہ اپنی کارروائیاں کر رہے ہیں، وہاں دنیا کی غریب ترین کمیونیٹیز آباد ہیں۔ ان کی کارروائیوں میں فوجیوں کے ساتھ ساتھ ایک بڑی تعداد میں عام شہری بھی مارے جاتے ہیں۔ فریقین کی مسلح کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک جبکہ بیس لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
ان پرتشدد کارروائیوں نے ساحل ریجن کی قوموں کو ہلا کر رکھ دیا ہے لیکن کوئی بھی جہادی گروہ یہاں شام یا عراق کی طرح متوازی حکومت قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
کون سے ممالک ان سے لڑ رہے ہیں؟
سابق نوآبادیاتی طاقت فرانس نے مالی میں اپنے تقریبا 2400 فوجیوں کے ساتھ اس لڑائی کی قیادت کی ہے۔ نائجر میں امریکا کے 800 طاقتور فوجی موجود ہیں اور وہ اپنے فوجی اڈے سے مسلح ڈرونز کے ذریعے کارروائیاں کرتے ہیں۔ نائجر میں جرمنی اور اٹلی کے فوجی بھی موجود ہیں۔ یورپی ممالک وہاں 'تقبہ اسپیشل فورسز مشن‘ میں شریک ہوئے۔ اس مشن کی سربراہی بھی فرانس کے ہاتھ میں تھی لیکن اب یہ مشن بھی ختم ہو جائے گا۔
اسی خطے میں افریقی فورسز، جس کا نام 'جی فائیو ساحل‘ ہے، تعینات ہیں۔ اس فوجی اتحاد میں مالی، نائجر، چاڈ، برکینا فاسو اور موریطانیہ کی سرکاری فورسز شامل ہیں۔
اشتہار
کیا غیر ملکی افواج کو کامیابی ملی؟
فرانسیسی فوجی دستوں نے 'آئی ایس جی ایس‘ کے اعلیٰ رہنماؤں کو ہلاک کیا۔ ان میں عدنان ابو ولید الصحراوی بھی شامل ہیں، جنہیں گزشتہ برس نشانہ بنایا گیا۔ بین الاقوامی فورسز نے مقامی فوجیوں کو تربیت فراہم کی ہے۔ اس طرح ایک ایسا 'بیک اپ‘ تیار کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس سے خطے میں تعینات اقوام متحدہ کی امن فورسز بھی فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔
لیکن بین الاقوامی فورسز کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ فرانس نے ساحل مشن پر سالانہ تقریباﹰ ایک ارب یورو خرچ کیے ہیں اور اس کے تقریبا 59 فوجی ہلاک ہوئے۔ علاوہ ازیں فرانسیسی فوجیوں کی غلطیوں کی وجہ سے فرانس کے خلاف نفرت میں بھی بے حد اضافہ ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کے مطابق گزشتہ برس وسطی مالی میں ایک شادی پر فضائی حملے کے نتیجے میں 19 غیر مسلح شہری مارے گئے تھے۔ فرانس ابھی تک اس حملے کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کر رہا ہے۔
دریں اثناء باغیوں کے حملے بلا روک ٹوک جاری ہیں۔ مقامی جمہوری حکومتیں اس خطرے سے نمٹنے کے قابل نہیں تھیں۔ مالی اور برکینا فاسو میں فوجی قیادت نے اقتدار چھین لیا ہے اور انہیں وسیع عوامی حمایت بھی حاصل ہے۔ دوسرے لفظوں میں غیرملکی فورسز 'خالی ہاتھ‘ واپس لوٹ رہی ہیں۔
ا ا / ع ح ( روئٹرز)
افریقہ سن 2021 میں، ایک تصویری جائزہ
کانگو رمبا کی فتح سے لے کر مختلف بغاوتوں نے براعظم افریقہ کو ہِلا کر رکھ دیا۔ مختلف واقعات درج ذیل تصاویر میں دیکھیں:
تصویر: Ericky Boniphase/DW
تنزانیہ اور کووڈ انیس
کورونا وبا کے اوائل میں تنزانیہ کئے صدر جان ماگوفلی نے کہا تھا کہ خدائی طاقت سے ان کا ملک کورونا وبا سے آزاد ہے۔ ان کی رحلت مارچ سن2021 میں ہو گئی تو جانشین خاتون صدر سامیہ حسن نے مرحوم صدر کی پالیسی تبدیل کر دی اور ویکسینیشن کے پروگرام کا آغاز کر دیا۔
تصویر: Ericky Boniphase/DW
ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں تاریخ رقم ہو گئی
نائجیریا کی اینگوزی اوکانجو اِیویلا کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل کے منصب کے لیے چُن لیا گیا۔ عالمی مالیاتی امور کی ماہر اوکانجو اِیویلا اس انتخاب سے قبل ویکسین آلائنس جی اے وی ای (GAVI) تنظیم کی سربراہ تھیں۔ وہ دو دفعہ نائجیریا کی وزیر خزانہ بھی رہ چکی ہیں۔
تصویر: Luca Bruno/AP Photo/picture alliance
چاڈ میں خاموش بغاوت
اس تصویر میں چاڈ کے مقتول صدر ادریس دیبی رواں برس کے صدارتی الیکشن میں ووٹ ڈال رہے ہیں۔ وہ ملک کے چھٹی مرتبہ صدر منتخب ہو گئے تھے لیکن باغیوں کے خلاف میدانِ جنگ میں گولی لگنے سے ہلاک ہو گئے۔ فوج کے جرنیلوں نے ان کے بیٹے محمد کو عارضی صدر بنا دیا۔ ناقدین نے اسے ایک ’نسلی بغاوت‘ قرار دیا۔ ادریس دیبی کا دورِ صدارت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، اقربا پروری اور کرپشن سے عبارت قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: MARCO LONGARI/AFP
بغاوتیں، بغاوتیں اور بغاوتیں
مامادی ڈومبُویا (ہاتھ ہلاتے ہوئے) وہ فوجی لیڈر ہیں جنہوں نے سن 2021 میں جبری طور پر اقتدار پر قبضہ کیا۔ سن 2021 کے اوائل میں مالی کی فوج نے نو ماہ میں میں دوسری بغاوت کر کے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ سوڈان میں بھی فوج نے اکتوبر میں سویلین حکومت کو فارغ کر کے اقتدار پر قبضہ حاصل کیا تھا۔ سوڈان میں ایمرجنسی کا نفاذ ہے اور عوامی مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
تصویر: CELLOU BINANI/AFP/ Getty Images
حیرانی میں دھرے گئے
کانگو کا آتش فشاں ماؤنٹ نیئراگونگو مئی میں اُبل پڑا تھا۔ ہزاروں افراد گھربار چھوڑؑنے پر مجبور ہو گئے۔ تین ہزار مکانات راکھ ہو کر رہ گئے۔ حکومت پر الزام لگایا گیا کہ آتش فشاں کی نگرانی کے لیے سرمایہ فراہم نہیں کیا گیا لہذا اس کے پھٹنے کی فوری اطلاع نہیں دی جا سکی۔
تصویر: Moses Sawasawa/AFP/Getty Images
موزمبیق میں مشترکہ آپریشن
ستمبر میں روانڈا کے صدر پال کاگامے نے موزمبیق میں تعینات اپنی فوج سے ملاقات کی تھی۔ موزمبیق کے شمالی صوبے کابو ڈیلگاڈو میں یہ افواج تعینات ہیں۔ موزمبیق کے صدر فیلیپے نیوسی نے روانڈا کی فوج کی کارروائیوں کی تعریف بھی کی ہے۔ اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کے خلاف جنوبی افریقی ترقیاتی کمیونٹی (SADC) کے رکن ملکوں کے فوجی بھی ایک مشترکہ آپریشن میں شریک ہیں۔
تصویر: Estácio Valoi/DW
ایتھوپیا کی خانہ جنگی اور سویلین کی مشکلات
ایتھوپیا میں کسی جنگ بندی کے امکانات معدوم ہو رہے ہیں۔ ملکی وزیر اعظم آبی احمد اور تگرائی کے باغی ابھی تک مدمقابل ہیں۔ یہ مسلح تنازعہ سن 2020 سے شروع ہے۔ ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ عام شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
تصویر: Maria Gerth-Niculescu/DW
جنوبی افریقہ دنیا سے کٹ کر رہ گیا
جنوبی افریقہ دنیا کے کئی حصوں سے اُس وقت کٹ کر رہ گیا جب نومبر میں اس ملک میں سائنسدانوں نے کورونا وائرس کے اومیکرون ویرئنٹ دریافت کیا۔ اب برطانیہ سمیت کچھ اور ممالک نے اس ملک کے سیاحوں پر عائد سفری پابندیوں کو ہٹا دیا ہے۔ لیکن ابھی بھی بہت سے ملکوں کی پابندیاں بدستور موجود ہیں۔
تصویر: Jerome Delay/AP Photo/picture alliance
لوٹے آرٹ کی واپسی کا جشن
سن 2021 افریقی ثقافتی ورثے کی بحالی میں ایک نیا موڑ لے کر آیا۔ فرانس، جرمنی، بیلجیم اور نیدرلینڈز سمیت کئی اور ملکوں نے اس بر اعظم کے قیمتی تاریخی نوادرات کی واپسی کا سلسلہ شروع کیا۔ بنین میں فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے بادشاہ غیزو کے تخت کو فوجی اعزار کے ساتھ وصول کیا گیا۔
تصویر: Seraphin Zounyekpe/Presidence of Benin/Xinhua/picture alliance
مالی سے فرانس کا انخلاء
فرانس نے ٹمبکٹو کے فوجی اڈے کا کنٹرول مالی کی فوج کے حوالے کر دیا ہے۔ فرانس کے فوجی مالی میں نو برس سے باغیوں کے خلاف برسرِپیکار ہیں۔ اس کے دو ہزار فوجی سن 2022 تک واپس وطن لوٹ آئیں گے۔ مالی کے وزیر خاجہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کا ملک فرانس کے ساتھ تعمیری مذاکرات کا خواہشمند ہے۔
تصویر: Blondet Eliot/ABACA/picture alliance
افریقی لٹریچر کا ایک عظیم سال
سن 2021 کو افریقی ادیبوں کے لیے ایک اچھا سال قرار دیا گیا ہے۔ تصویر میں زمبابوے کی ادیب ہی ٹسِٹسی ڈانگاریمبگا ہیں۔ ان کو جرمنی کا سالانہ پیس پرائز دیا گیا ہے۔ سینیگال کے محمد مبوگر سار کو فرانس کا معتبر پری گونکور پرائز اور جنوبی افریقی ادیب ڈامون گالگوٹ کو بُکرز پرائز سے نوازا گیا۔ سن 2021 ہی میں تنزانیہ کے عبدالرزاق گُرناہ کو نوبل انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا۔
تصویر: Sebastian Gollnow/dpa/picture alliance
آئیے ڈانس کریں
افریقی رمبا اس براعظم کا محبوب ترین رقص ہے۔ کانگو اور جمہوریہ کانگو میں رمبا موسیقی سے بھی زیادہ مقام رکھتا ہے۔ یونیسکو نے سن 2021 میں اس رقص کو دنیا کے ان چھوئے ورثے میں شامل کیا ہے۔ اس رقص و موسیقی کی صنف کو یہ اعزاز مشہور و معروف رمبا موسیقار پاپا ویمبا (تصویر میں) کی موت کے پانچ سالوں بعد ملا ہے۔