1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
مہاجرتیورپ

فرانس: مہاجرین سے متعلق بل کی مخالفت میں سیاسی جماعتیں متحد

12 دسمبر 2023

فرانس میں امیگریشن اصلاحات سے متعلق وہ بل ناکام ہو گیا، جسے صدر ایمانوئل ماکروں کی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ اس بل کا مقصد پناہ گزینوں کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ہی انہیں بہتر طور پر مربوط کرنا تھا۔

یورپ میں تارکین وطن کا ایک کیمپ
اس بل کے قانون بن جانے سے حکومت کے لیے ان تارکین وطن کو ملک بدر کرنا آسان ہو جائے گا، جنہیں عدالت نے پانچ برس یا اس سے زیادہ سالوں کی قید کی سزا سنائی ہوتصویر: Marco Alpozzi/LaPresse via ZUMA Press/picture alliance

فرانس میں امیگریشن سے متعلق نئے اصلاحی بل کو پیر کے روز ایوان میں پیش کیا گیا تھا، جس کی انتہائی دائیں، انتہائی بائیں خیالات اور اعتدال پسند دائیں اور بائیں نظریات کے ارکان پارلیمنٹ نے مخالفت کی اور اسے مسترد کرنے کے لیے ووٹ کیا۔

'پوپ، آئی لوو یو‘ : لیسبوس میں پوپ فرانسس کی پناہ گزینوں سے ملاقات

حکومت کا کہنا ہے کہ اس بل کا مقصد امیگریشن کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ہی تارکین وطن کو اہم قومی دھارے میں بہتر طور پر مربوط کرنا ہے۔

ٹرکوں سے چھلانگ لگا کر، برطانیہ پہنچنے کی کوشش: تارکین وطن کا کیا بنے گا؟

لیکن بائیں بازو کے ارکان کا کہنا تھا کہ اس بل میں جن اقدامات کی تجاویز پیش کی گئیں، وہ بہت جابرانہ ہیں، جب کہ دائیں بازوں کے نظریات کے ارکان کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ میں پیش کردہ بل کافی سخت نہیں ہے اور نرمی سے کام لیا گیا۔

’انسان اتنی ذلت و حقارت کیسے برداشت کر سکتا ہے‘

بل میں کیا ہے؟

اس بل کے قانون بن جانے سے حکومت کے لیے ان تارکین وطن کو ملک بدر کرنا آسان ہو جائے گا، جنہیں عدالت نے پانچ برس یا اس سے زیادہ سالوں کی قید کی سزا سنائی ہو۔ اس کے تحت تارکین وطن کے لیے خاندان کے دیگر افراد کو فرانس لانا بھی مزید مشکل ہو جائے گا۔

پیرس پولیس نے مہاجرین کے دو غیر قانونی کیمپ زبردستی خالی کرا لیے

تاہم اس کے باوجود یہ بل ایوان بالا یعنی سینیٹ کے تجویز کردہ مسودے کے مقابلے میں کافی زیادہ نرم ہے۔ فرانس کی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں دائیں بازو کا غلبہ ہے اور اس کے تجویز کردہ بل سے غیر قانونی تارکینِ وطن کے لیے صحت کی دیکھ بھال جیسے فوائد تک بھی رسائی میں شدید کمی واقع ہو سکتی ہے۔

ماکروں کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس بل کا مقصد امیگریشن کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ہی تارکین وطن کو اہم قومی دھارے میں بہتر طور پر مربوط کرنا ہےتصویر: Ludovic Marin/REUTERS

صدر ما کروں کے سخت گیر وزیر داخلہ جیرالڈ ڈرمینین نے مسودہ قانون کی بھرپورحمایت کی تھی۔ ووٹ سے قبل انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ اگر بل منظور ہو جاتا ہے تو حکومت کو منشیات فروشوں سمیت ''انتہائی خطرناک'' غیر ملکی شہریوں کو ملک بدر کرنے کی اجازت مل جائے گی۔ 

فرانسیسی پولیس مہاجرین کا جسمانی استحصال کر رہی ہے، آکسفیم

لیکن حزب اختلاف کے اراکین پارلیمنٹ کی حمایت حاصل کرنے کی ان کی کوششیں اس وقت ناکام ہو گئیں، جب مختلف دھڑوں نے بل کو مسترد کرنے کی تحریک کے حق میں ووٹ دیا۔

بل کی مخالفت میں سبھی متحد

انتہائی دائیں بازو کی جماعت 'نیشنل ریلی' کے ارکان پارلیمان حکومت کو شکست دینے کے لیے انتہائی بائیں بازو کی جماعت 'فرانس انبوڈ' اور دائیں بازو کے ریپبلکنز نیز دیگر چھوٹی جماعتوں کے ساتھ شامل ہو گئے۔

ووٹنگ سے قبل سینٹرل بائیں بازو کی سوشلسٹ پارٹی کے رکن پارلیمان آرتھر ڈیلاپورٹ نے کہا کہ ان کی پارٹی بل کے خلاف ووٹ دے گی، کیونکہ یہ ''غیر منصفانہ، بدنامی کا باعث اور آزادی کے لیے خطرہ'' بھی ہے۔

ناکامی کے بعد وزیر داخلہ جیرالڈ ڈرمینین نے اپنا استعفی پیش کیا تاہم صدر نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا، ''میں نے اپنا استعفیٰ پیش کیا کیونکہ جب آپ ناکام ہوتے ہیں، تو ایسا کرنا معمول کی بات ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ اس پر ہم کیا فیصلہ کرتے ہیں۔''

 ماکروں کی حکمراں جماعت نے جون 2022 میں ہونے والے انتخابات میں پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کھو دی تھی۔ اس کے بعد سے حکومت اپنے بل منظور کروانے کے لیے پارلیمنٹ میں ووٹ حاصل کرنے میں اکثر ناکام رہی ہے۔

فرانس میں وزیر اعظم ایلزبتھ بورن کے پاس بغیر ووٹ کے قوانین منظور کرنے کا بھی ایک خصوصی اختیار ہے، تاہم اس مسودے کی منظوری کے لیے اس کا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

حکومت اب اسے ایوان بالا میں واپس بھیجنے کا فیصلہ کر سکتی ہے اور سینیٹرز نیز دیگر نائبین کی مشترکہ کمیٹی کے پاس بھیج کر کوئی سمجھوتہ بھی کر سکتی ہے۔ اسے واپس بھی لیا جا سکتا ہے، تاہم اس کا امکان بہت کم ہے۔ حکومت خصوصی انتظامی اختیارات بھی استعمال کر سکتی ہے، جس کے تحت اسے ووٹ کے بغیر بھی اپنانے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے ایف پی)

پیرس میں سڑک کنارے رہنے والے مہاجرین ہٹا دیے گئے

01:01

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں