فرانس: انتہائی دائیں بازو کی نیشنل فرنٹ کے بانی کا انتقال
7 جنوری 2025
فرانس میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیشنل فرنٹ کے بانی ژاں ماری لے پین چھیانوے برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔ وہ تارکین وطن کی آمد اور کثیر الثقافتی معاشرے کے شدید مخالف اور ایک سزا یافتہ سامیت دشمن بھی تھے۔
سیاسی تقسیم پیدا کرنے والی ایک متنازعہ شخصیت: ژاں ماری لے پین کی مئی دو ہزار انیس میں لی گئی ایک تصویرتصویر: Pauletto Francois/Avenir Pictures/ABACA/picture alliance
اشتہار
فرانسیسی داارالحکومت پیرس سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ژاں ماری لے پین کی موت کی اطلاع ان کی ماضی میں نیشنل فرنٹ اور اب نیشنل ریلی کہلانے والی پارٹی کے موجودہ صدر جورداں باردیلا نے منگل سات جنوری کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں دی۔
ژاں ماری لے پین کی سیاست کی خاص بات یہ تھی کہ وہ ایک انتہائی متنازعہ سیاسی رہنما تھے، جنہوں نے فرانس میں تارکین وطن کی آمد اور فرانسیسی معاشرے کی کثیر الثقافتی شناخت کے خلاف اپنی شعلہ بیان تقریروں سے جہاں اپنے لیے بہت سے حمایتی بنائے تھے، وہیں بہت سے فرانسیسی باشندے ان کی اسی سوچ کے باعث ان کے شدید مخالف بھی تھے۔
باپ اور بیٹی: ژاں ماری لے پین اور مارین لے پین کی ستمبر دو ہزار چودہ میں لی گئی ایک تصویرتصویر: Valery Hache/AFP/Getty Images
فرانسیسی سیاست میں تقسیم پیدا کرنے والے رہنما
چھیانوے برس کی عمر میں انتقال کر جانے والے ژاں ماری لے پین فرانسیسی سیاست میں عشروں سے جاری سیاسی تقسیم پیدا کرنے والے ایک متنازعہ سیاست دان تھے۔
انہوں نے اپنی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ کے قیام کے ساتھ اتنی مقبولیت حاصل کر لی تھی کہ اپنے سیاسی کیریئر کے عروج پر 2002ء کے فرانسیسی صدارتی الیکشن میں تو وہ ژاک شیراک کے خلاف دوسرے مرحلے کی انتخابی رائے دہی میں صدارتی امیدوار بھی بن گئے تھے۔
ژاں ماری لے پین صرف تارکین وطن اور کثیر الثقافتی معاشرتی پہچان کے خلاف ہی نہیں تھے، بلکہ وہ ایک سز ایافتہ سامیت دشمن بھی تھے۔ وہ دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی جرمن دور میں یہودیوں کے قتل عام یا ہولوکاسٹ کے بھی انکاری تھے۔ اس وجہ سے انہیں کئی مرتبہ سزائیں بھی سنائی گئی تھیں اور ان کے مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ بنائے گئے اتحاد بھی اسی لیے ہمیشہ دباؤ اور کشیدگی کا شکار ہی رہتے تھے۔
مارین لے پین (تصویر) کو اس وقت اپنے خلاف پبلک فنڈز کے غلط استعمال اور مالیاتی دھوکہ دہی کے ایک مقدمے کا سامنا ہےتصویر: Aurelien Morissard/Xinhua/dpa/picture alliance
اپنی ہی بیٹی کی طرف سے پارٹی سے نکالے گئے فرانسیسی لیڈر
ژاں ماری لے پین کی بیٹی بھی اس وقت فرانسیسی سیاست میں بہت فعال ہیں، جن کا نام مارین لے پین ہے۔ ژاں ماری لے پین کے ان کی بیٹی مارین لے پین کے ساتھ تعلقات سالہا سال سے بہت کھچاؤ کا شکار تھے۔
مارین لے پین نے جب اپنے والد ژاں ماری لے پین کی جانشین کے طور پر نیشنل فرنٹ کی قیادت سنبھالی تھی، تو اس کے بعد دونوں کے سیاسی تعلقات خراب تر ہو گئے تھے۔
اس کے بعد مارین لے پین نے ایک سیاسی جماعت کے طور پر نہ صرف نیشنل فرنٹ کا نام بدل دیا تھا بلکہ ساتھ ہی اپنے والد کو ان کی انتہا پسندانہ ساکھ کے باعث پارٹی سے نکال بھی دیا تھا۔
فرانس کی ماضی میں نیشنل فرنٹ اور اب نیشنل ریلی کہلانے والی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت کے موجودہ صدر جورداں باردیلاتصویر: Stephane de Sakutin/AP/picture alliance
بعد کے برسوں میں مارین لے پین نے اب نیشنل ریلی کہلانے والی اس سیاسی جماعت کو اتنا آگے بڑھایا کہ آج انتہائی دائیں بازو کی یہ جماعت یورپی یونین کے رکن ملک فرانس کی بڑی سیاسی قوتوں میں سے ایک ہے۔
اشتہار
مارین لے پین کے خلاف عدالتی کارروائی جاری
ژاں ماری لے پین ایک فرانسیسی مچھیرے کے بیٹے تھے۔ درمیانے قد اور چاندی جیسے بالوں والے اس سیاستدان کی اپنے بارے میں رائے یہ تھی کہ ان کا مشن پورے فرانس کو نیشنل فرنٹ کے جھنڈے تلے جمع کرنا تھا۔
اسی لیے انہوں نے اپنی پارٹی کی 'محافظ سینٹ‘ کے طور پر فرانسیسی تاریخ کی عظیم خاتون جون آف آرک کا انتخاب کیا تھا۔
انتہائی دائیں بازو کے یورپی رہنما اور سیاسی جماعتیں
سست اقتصادی سرگرمیاں، یورپی یونین کی پالیسیوں پر عدم اطمینان اور مہاجرین کے بحران نے کئی یورپی ملکوں کے انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو کامیابی دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن: فراؤکے پیٹری، الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ
جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ کی لیڈر فراؤکے پیٹری نے تجویز کیا تھا کہ جرمن سرحد کو غیرقانونی طریقے سے عبور کرنے والوں کے خلاف ہتھیار استعمال کیے جائیں۔ یہ جماعت جرمنی میں یورپی اتحاد پر شکوک کی بنیاد پر قائم ہوئی اور پھر یہ یورپی انتظامی قوتوں کے خلاف ہوتی چلی گئی۔ کئی جرمن ریاستوں کے انتخابات میں یہ پارٹی پچیس فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
فرانس: مارین لے پین، نیشنل فرنٹ
کئی حلقوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ برطانیہ میں بریگزٹ اور امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے انتہائی دائیں بازو کی فرانسیسی سیاسی جماعت کو مزید قوت حاصل ہو گی۔ سن 1972 میں قائم ہونے والے نیشنل فرنٹ کی قیادت ژاں ماری لے پین سے اُن کی بیٹی مارین لے پین کو منتقل ہو چکی ہے۔ یہ جماعت یورپی یونین اور مہاجرین کی مخالف ہے۔
تصویر: Reuters
ہالینڈ: گیئرٹ ویلڈرز، ڈچ پارٹی فار فریڈم
ہالینڈ کی سیاسی جماعت ڈچ پارٹی فار فریڈم کے لیڈر گیئرٹ ویلڈرز ہیں۔ ویلڈرز کو یورپی منظر پر سب سے نمایاں انتہائی دائیں بازو کا رہنما خیال کیا جاتا ہے۔ مراکشی باشندوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر پر سن 2014 میں ویلڈرز پر ایک مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ اُن کی سیاسی جماعت یورپی یونین اور اسلام مخالف ہے۔ اگلے برس کے پارلیمانی الیکشن میں یہ کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Koning
یونان: نکوس مِشالاولیاکوس، گولڈن ڈان
یونان کی فاشسٹ خیالات کی حامل سیاسی جماعت گولڈن ڈان کے لیڈر نکوس مِشالاولیاکوس ہیں۔ مِشالاولیاکوس اور اُن کی سیاسی جماعت کے درجنوں اہم اہلکاروں پر سن 2013 میں جرائم پیشہ تنظیم قائم کرنے کا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا اور وہ سن 2015 میں حراست میں بھی لیے گئے تھے۔ سن 2016 کے پارلیمانی الیکشن میں ان کی جماعت کو 16 نشستیں حاصل ہوئیں۔ گولڈن ڈان مہاجرین مخالف اور روس کے ساتھ دفاعی معاہدے کی حامی ہے۔
تصویر: Angelos Tzortzinis/AFP/Getty Images
ہنگری: گَبور وونا، ژابِک
ہنگری کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت ژابِک کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سن 2018 کے انتخابات جیت سکتی ہے۔ اس وقت یہ ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ سن 2014 کے پارلیمانی الیکشن میں اسے بیس فیصد ووٹ ملے تھے۔ یہ سیاسی جماعت جنسی تنوع کی مخالف اور ہم جنس پرستوں کو ٹارگٹ کرتی ہے۔ اس کے سربراہ گَبور وونا ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
سویڈن: ژیمی آکسن، سویڈش ڈیموکریٹس
ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن کے بعد سویڈش ڈیموکریٹس کے لیڈر ژیمی آکسن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ یورپ اور امریکا میں ایسی تحریک موجود ہے جو انتظامیہ کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ سویڈش ڈیموکریٹس بھی مہاجرین کی آمد کو محدود کرنے کے علاوہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی مخالف ہے۔ یہ پارٹی یورپی یونین کی رکنیت پر بھی عوامی ریفرنڈم کا مطالبہ رکھتی ہے۔
تصویر: AP
آسٹریا: نوربیرٹ، فریڈم پارٹی
نوربیرٹ ہوفر آسٹریا کی قوم پرست فریڈم پارٹی کے رہنما ہیں اور وہ گزشتہ برس کے صدارتی الیکشن میں تیس ہزار ووٹوں سے شکست کھا گئے تھے۔ انہیں گرین پارٹی کے سابق لیڈر الیگزانڈر فان ڈیئر بیلن نے صدارتی انتخابات میں شکست دی تھی۔ ہوفر مہاجرین کے لیے مالی امداد کو محدود اور سرحدوں کی سخت نگرانی کے حامی ہیں۔
سلوواکیہ کی انتہائی قدامت پسند سیاسی جماعت پیپلز پارٹی، ہمارا سلوواکیہ ہے۔ اس کے لیڈر ماریان کوتلیبا ہیں۔ کوتلیبا مہاجرین مخالف ہیں اور اُن کے مطابق ایک مہاجر بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو ایک مرتبہ جرائم پیشہ تنظیم بھی قرار دیا تھا۔ یہ یورپی یونین کی مخالف ہے۔ گزشتہ برس کے انتخابات میں اسے آٹھ فیصد ووٹ ملے تھے۔ پارلیمان میں چودہ نشستیں رکھتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
8 تصاویر1 | 8
اس کے علاوہ ژاں ماری لے پین کی رائے یہ بھی تھی کہ فرانس کو درپیش اقتصادی اور سماجی مسائل کی وجہ وہاں آباد مسلمان تارکین وطن اور اسلام ہیں۔
مارین لے پین کے لیے ان کے والد کے انتقال کی اطلاع اس لیے برے وقت پر ملنے والی بری خبر ہے کہ اس فرنچ سیاستدان کو ممکنہ طور پر عنقریب ہی سزائے قید بھی ہو سکتی ہے اور ان کے کسی سیاسی عہدے کے لیے امیدوار بننے پر عدالتی پابندی بھی لگائی جا سکتی ہے۔
مارین لے پین کے خلاف ان دنوں ایک ایسے مقدمے کی سماعت جاری ہے، جس میں انہیں پبلک فندز کے غلط استعمال اور مالیاتی دھوکہ دہی کے الزامات کا سامنا ہے۔