’فرانس میں برقعے پر پابندی انسانی حقوق کی خلاف ورزی‘
23 اکتوبر 2018
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے فرانس میں نقاب سمیت برقعہ پہننے یا مکمل طور پر جسم ڈھانپنے پر پابندی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ کمیٹی نے اس قانون پر نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اشتہار
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کے مطابق فرانس اس پابندی کے حوالے سے اپنے مقدمے کا دفاع کرنے میں ناکام رہا ہے۔ پیرس حکام کو اس تناظر میں اٹھائے جانے والے ممکنہ اقدامات کے حوالے سے 180 دنوں کی مہلت دی گئی ہے۔ تاہم اس پینل کے ان نتائج کی کوئی قانونی حیثیت تو نہیں ہے لیکن یہ فرانسیسی عدالتوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ کمیٹی خاص طور پر فرانسیسی حکام کے اس موقف سے اتفاق نہیں کرتی کہ چہرے کے مکمل نقاب پر پابندی سلامتی اور معاشرے میں مل جل کر رہنے کے حوالے سے ضروری تھی۔
یہ پینل اٹھارہ غیر جانبدار ماہرین پر مشتمل تھا، جس نے شہری اور سیاسی آزادی کے بین الاقوامی معاہدے ( آئی سی سی پی آر) کی روشنی میں اس پابندی کا جائزہ لیا۔ فرانس پر لازم نہیں ہے کہ وہ اس نتیجے پر عمل درآمد کرے تاہم اس معاہدے کے ایک اختیاری پروٹوکول کی وجہ سے فرانس پر جذبہ خیر سگالی کے تحت اس پر عمل کرنے کی ایک بین الاقوامی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔
برقعہ اور نقاب کن یورپی اور مسلم ممالک میں ممنوع ہے؟
ہالینڈ میں یکم اگست سے چہرے کے مکمل نقاب پر پابندی پر عملدرآمد شروع ہو گیا ہے۔ کچھ دیگر یورپی ممالک پہلے ہی اسی طرح کے اقدامات اٹھا چکے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ کچھ مسلم ممالک نے بھی برقع پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Kelly
چودہ برسوں کی طویل بحث
چودہ برسوں کی طویل بحث کے بعد آخر کار یکم اگست سن دو ہزار انیس سے ہالینڈ میں خواتین کے برقعے یا چہرے کے مکمل نقاب پر پابندی کے متنازعہ قانون پر عملدرآمد شروع ہو گیا۔ گزشتہ جون میں ڈچ قانون سازوں نے اس قانون کی منظوری دی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Lampen
فرانس، نقاب پر پابندی لگانے والا پہلا ملک
فرانس وہ پہلا یورپی ملک ہے جس نے عوامی مقامات پر خواتین کے برقعہ پہننے اور نقاب کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔ پیرس حکومت نے یہ بین اپریل سن 2011 سے لگا رکھا ہے۔ اس پابندی سے پردہ کرنے والی قریب دو ہزار مسلم خواتین متاثر ہوئی تھیں۔
تصویر: dapd
بیلجیم میں بھی پردہ ممنوع
فرانس کے نقاب اور برقعے کی ممانعت کے صرف تین ماہ بعد جولائی سن 2011 میں بیلجیم نے بھی پردے کے ذریعے چہرہ چھپانے پر پابندی لگا دی۔ بیلجیم کے قانون میں چہرہ چھپانے والی خواتین کو نقد جرمانے سمیت سات دن تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
آسٹریا میں نقاب پر پابندی کے قانون کی منظوری
خواتین کے نقاب پر پابندی کا قانون آسٹریا میں سن 2017 اکتوبر میں منظور کیا گیا۔ اس قانون کی رُو سے عوامی مقامات میں چہرے کو واضح طور پر نظر آنا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
پردے پر پابندی بلغاریہ میں بھی لیکن استثنا کے ساتھ
ہالینڈ کی طرح بلغاریہ نے بھی چہرہ چھپانے پر پابندی سن 2016 میں عائد کی تھی۔ خلاف ورزی کرنے والی خاتون کو ساڑھے سات سو یورو تک کا جرمانہ بھرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم عبادت گاہوں، کھیل کے مقامات اور دفاتر میں اس پابندی سے استثنا حاصل ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sabawoon
ڈنمارک بھی
ڈنمارک میں چہرہ چھپانے اور برقعے پر پابندی یکم اگست سن 2018 سے نافذالعمل ہوئی۔ گزشتہ برس مئی میں ڈینش پارلیمان نے اس قانون کو اکثریت سے منظور کیا تھا۔ اس قانونی مسودے کی منظوری کے بعد ڈینش حکومت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اس پابندی کا ہدف کوئی مذہب نہیں ہے۔
تصویر: Grips Theater/David Balzer
شمالی افریقی ملک مراکش میں پابندی
مراکش نے2017 میں برقع یا چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپنے والے ملبوسات کی پروڈکشن پر پابندی عائد کی تھی۔ اس مسلم اکثریتی ملک میں بھی اس پابندی کی وجہ سکیورٹی تحفظات بتائے گئے تھے۔ تب حکومت کا کہنا تھا کہ ڈاکو اپنی مجرمانہ کارروائیوں کے لیے پردے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ اس لباس پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی لیکن حکومت کی طرف سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/blickwinkel/W. G. Allgoewer
چاڈ میں برقع پر پابندی
افریقی ملک چاڈ میں جون سن دو ہزار پندرہ میں ہوئے دوہرے خود کش حملوں کے بعد مکمل چہرے کے پردے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ تب حکومت نے کہا تھا کہ شدت پسند تنظیم بوکو حرام کے جنگجوؤں نے ان حملوں کو کامیاب بنانے کے لیے پردے کو بہانہ بنایا تھا۔ اس ملک کی پچاس فیصد سے زائد آبادی مسلمان ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
تیونس میں سکیورٹی تحفظات
تیونس میں جون سن دو ہزار انیس میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ملکی صدر نے چہرے کو مکمل طور پر ڈھاانپنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس مسلم ملک میں اس پابندی کی وجہ سکیورٹی تحفظات بنے تھے۔
تصویر: Taieb Kadri
تاجکستان، کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں
وسطی ایشیائی ملک تاجکستان میں ستمبر سن دو ہزار سترہ میں پہلے سے موجود ایک قانون میں ترمیم کے ذریعے مقامی ملبوسات کو فروغ دینے پر زور دیا گیا تھا۔ اس مسلم اکثریتی ملک میں اس قانون کے تحت چہرے کا مکمل پردہ یا برقع ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ تاہم اس قانون کی خلاف ورزی پر کوئی سزا یا جرمانہ نہیں رکھا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/TASS/M. Kalandarov
10 تصاویر1 | 10
فرانس کی 67 ملین کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد اندازاً پانچ ملین ہے۔ یہ کسی بھی یورپی ملک میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ فرانس میں کسی بھی عوامی مقام پر چہرے کا مکمل نقاب کرنے پر ڈیڑھ سو یورو کا جرمانہ کیا جاتا ہے۔ میٹرو نیوز کے مطابق 2015ء میں ایسے 223 جرمانے کیے گئے۔
کئی یورپی ممالک نے اسلامی قرار دیے جانے والے ملبوسات کے حوالے سے قانون سازی کی ہوئی ہے۔ اسی سال مئی میں ڈنمارک کی پارلیمان نے چہرے کے نقاب پر پابندی کے حوالے سے ایک قانون کی منظوری دی۔ بیلجیم ، ہالینڈ، بلغاریہ اور جرمن صوبے باویریا میں بھی چہرہ چھپانے کے حوالے سے کچھ پابندیاں عائد ہیں۔
جرمن ریاست میں کم عمر لڑکیوں کے اسکارف پہننےپر پابندی زیرغور