1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیات

فرانس میں جی۔سیون ممالک کا امتحان

شاہ زیب جیلانی
24 اگست 2019

ناقدین کہتے ہیں کہ یہ چند امیر ملکوں کا کلب ہے جو مل کر عالمی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی بجائے آپس میں اختلافات کا شکار نظر آتے ہیں۔

تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler

دنیا میں معاشی لحاظ سے سب سے آگے سمجھے جانے والے سات ملکوں کے گروپ 'جی۔سیون‘ کا اجلاس ہفتے کے روز فرانس میں شروع ہو رہا ہے۔ لیکن اجلاس سے پہلے ہی چین۔امریکا تجارتی لڑائی، ایمزان کے جنگلات میں آگ کے معاملے پر برازیل۔فرانس الزام تراشی اور بریگزٹ پر برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان تنازعے نے سربراہی اجلاس کا ماحول کچھ کشیدہ کر دیا ہے۔

حالیہ دنوں میں چین اور امریکا نے ایک دوسرے کی مصنوعات پر اربوں ڈالر کی نئی محصولات یا ڈیوٹی لگانے کا اعلان کر چکے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان یہ لڑائی اب باقی ملکوں پر اثر انداز ہو رہی ہے اور خدشہ ہے کہ اس صورتحال سے عالمی معیشت کساد بازاری کی طرف جا سکتی ہے۔

تصویر: Reuters/L. Mills

جی۔سیون ملکوں میں کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکا شامل ہیں۔ یہ سات ممالک مل کر دنیا کی چالیس فیصد مجموعی قومی پيداوار کے ذمہ دار ہیں۔

اس تنظیم کے اہم مقاصد میں انسانی حقوق، جمہوریت، خوشحالی اور پائیدار ترقی کا فروغ شامل ہے۔ حالیہ برسوں میں جی۔سیون ممالک کی توجہ کا خاص مرکز توانائی پالیسی، ماحولیات کا چیلنج، ایچ آئی وی ایڈز اور سکیورٹی جیسے معاملات رہے ہیں۔

تصویر: picture-alliance/NurPhoto/J. Gilles

یہ تنظیم دو ہزار چودہ تک جی۔ایٹ کہلاتی تھی لیکن پھر سابقہ يوکرائنی علاقے کريميا پر روس کے قبضے کے بعد، روس کی رکنیت معطل کر دی گئی جس کے بعد سے یہ عالمی تنظیم جی۔سیون بن گئی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خیال میں جی۔سیون ممالک کو  چاہیے کہ روس کو اب واپس تنظیم کا رکن بنائیں۔

چین بھی اس تنظیم کا حصہ نہیں۔ گو کہ چین کا شمار دنیا کی دوسری بڑی معیشت میں ہوتا ہے لیکن آبادی کے حساب سے دیکھا جائے تو اس کی دولت کم آبادی والے ترقی یافتہ ملکوں سے پیچھے ہو جاتی ہے۔ لیکن چونکہ چین نے خود کو عالمی سطح پر ایک بڑے اہم کھلاڑی کے طور پر منوایا ہے اس لیے وہ دیگر عالمی تنظیموں کے ساتھ ساتھ جی۔ٹوئنٹی ممالک کا اہم رکن ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں