فرانس میں پینشن اصلاحات کے خلاف عام ہڑتال، زندگی مفلوج
5 دسمبر 2019
فرانس میں صدر ایمانوئل ماکروں کی پینشن اصلاحات کے خلاف ملازمین کی مختلف انجمنوں نے مشترکہ طور پر عام ہڑتال کی کال دی ہے۔ اس ہڑتال میں مختلف شعبوں کے لاکھوں افراد حصہ لے رہے ہیں۔
اشتہار
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس ہڑتال میں اساتذہ، ملک بھر کے ٹرانسپورٹ ملازمین، محکمہ پولیس، وکلاء، ہسپتال اور ہوائی اڈوں کے عملے سمیت کئی دیگر شعبوں کے ملازمین حصہ لے رہے ہیں۔
فرانس میں ملازمت سے سبکدوشی اور پینشن سے متعلق کئی قوانین ایسے ہیں، جو بہت پرانے ہو چکے ہیں اور ماکروں انتظامیہ ان میں اصلاحات کے لیے ایک جامع قانون وضع کرنا چاہتی ہے۔
مجوزہ اصلاحات میں یہ بھی شامل ہے کہ ملازمین کی یومیہ کارکردگی کی بنیاد انہیں پوائنٹ دیے جائیں اور اسی بنیاد پر ملازم کی مستقبل کی پینشن طے کی جائے گی۔ اس میں ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی بھی تجویز ہے۔
فرانس میں ریٹائرمنٹ کی عمر 60 برس تھی، جو بعد میں 62 برس کر دی گئی لیکن ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں یہ اب بھی بہت کم ہے۔ پوائنٹ کی بنیاد پر اگر کوئی شخص 64 برس کی عمر سے قبل ریٹائر ہوتا ہے تو اسے پینشن کم ملے گی۔
بیشتر ٹریڈ یونینز حکومت کی ان اصلاحات کی مخالف ہیں اور اسی لیے سب نے متفقہ طور پر ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ حکام نے یونینز سے بات چیت کر کے درمیانی راستہ نکالنے بہت سی کوششیں کیں تاکہ کسی طرح اس ہنگامی صورتحال سے بچا جا سکے لیکن حکومتی کوششیں کارگر ثابثت نہ ہو سکیں۔
ویسے تو یہ ہڑتال جمعرات کے روز کے لیے ہے لیکن امکان ہے کہ اس میں توسیع بھی ہوجائے کیونکہ بعض ٹریڈ یونینز کے رہنماؤں کا کہنا ہے جب تک صدر اپنے منصوبوں کو واپس نہیں لیتے اس وقت تک ہڑتال جاری رہے گی۔ ادھر ملک کے صدر اور وزیر اعظم ان اصلاحات کے تئیں اپنی حکمت عملی طے کرنے میں مصروف ہیں۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ ہڑتال کے سبب بیشتر افراد گھر پر ہی رہیں گے کیونکہ ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی سبب آمد و رفت سب سے بڑا مسئلہ ہوگا۔ خبر رساں ادارے اے ایف کے مطابق ہڑتال کا سب سے زیاہ اثر نقل و حمل پر ہی پڑے گا۔ بتایا گیا ہے کہ متعدد پروازیں منسوخ کر دی گئی ہیں اور تیز رفتار ٹرینوں کی آمد و رفت بھی آج دن شدید متاثر رہے گی۔ جبکہ پیرس میٹرو کو پوری طرح سے بند کر دیا گیا ہے اور بیشتر سکولز بھی بند ہیں۔
قومی ایئر لائن 'ایئر فرانس' نے 30 فیصد ملکی اور پندرہ فیصد بین الاقوامی پروازوں کی منسوخی کا اعلان کیا ہے۔ سستی برطانوی ایئرلائن 'ایزی جیٹ' نے بھی ہڑتال کی وجہ سے اپنی 223 پروازیں منسوخ کردی ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ہڑتال کے دوران تقریبا ڈھائی سو مختلف مقامات پر مظاہروں کا امکان ہے اور بعض جگہوں پر پر تشدد واقعات بھی رونما ہو سکتے ہیں۔ اس ہڑتال میں ہسپتال کی نرسیں، پولیس افسران، محکمہ بجلی اور ڈاک کے ملازمین بھی شریک ہیں۔ وزارت صحت کا کہنا ہے کہ ہڑتال کے پیش نظر ہسپتالوں میں خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔
ایک جائزے کے مطابق جمعرات کی ہڑتال کو فرانس کے تقریبا 70 فیصد لوگوں کی حمایت حاصل ہے، جس میں اکثریت 18 سے 34 برس کے نوجوانوں کی ہے۔
مزدوروں کا عالمی دن اور اس کی تاریخ
مزدور تنظیمیں اور تحریکیں گزشتہ 150 برسوں میں بہت کچھ حاصل کر چکی ہیں۔ اس کی جڑیں اس صنعتی دور سے جڑی ہوئی ہیں، جب مزدورں نے فیکڑی مالکان کے استحصالی رویے کے خلاف بغاوت کی تھی۔
تصویر: Getty Images
صنعتی انقلاب کے فائدے اور نقصانات
صنعتی انقلاب کا آغاز اٹھارویں صدی کے اختتام پر برطانیہ میں ہوا۔ جہاں تکنیکی ترقی ہوئی ، وہاں سماجی بحرانوں نے بھی جنم لیا۔ صنعتی پیداوار کی ریڑھ کی ہڈی یعنی مزدورں نے فیکٹری مالکان کے استحصالی طریقوں کے خلاف آواز بلند کی۔ سب سے پہلا احتجاج برطانیہ میں ہوا، جہاں مشینوں کی وجہ سے بے روزگار ہونے والے افراد نے توڑ پھوڑ کی۔
تصویر: imago/Horst Rudel
کمیونسٹ منشور
دوسری جانب صنعتی یونٹس میں کام کرنے والوں کے حالات بھی بُرے تھے۔ انہیں دن میں زیادہ وقت کام کرنا پڑتا، اجرت کم تھی اور حقوق نہ ہونے کے برابر۔ انہوں نے اتحاد قائم کیا۔ کارل مارکس (تصویر) اور فریڈرک اینگلز نے مظلوم کارکنوں کو ’کمیونسٹ منشور‘ نامی پروگرام دیا۔ اس کا مقصد طبقاتی تقسیم کو ختم کرتے ہوئے غریب طبقے کی متوسط طبقے کے خلاف جیت تھی۔
تصویر: picture-alliance /dpa
مزدور تحریک سے سیاسی تحریک
سن 1864ء میں پہلی مرتبہ مختلف مزدور تنظیمیں نے بین الاقوامی سطح پر ایک دوسرے سے اتحاد کیا۔ نتیجے کے طور پر ٹریڈ یونینز اور سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں، مثال کے طور پر جنرل جرمن ورکرز ایسوسی ایشن (ADAV) اور سوشل ڈیموکریٹک ورکرز پارٹی (SDAP) کا ظہور ہوا۔ ان دونوں جماعتوں کے اتحاد سے سیاسی جماعت ایس پی ڈی وجود میں آئی، جو آج بھی جرمن سیاست کا لازمی جزو ہے۔
تصویر: AdsD der Friedrich-Ebert-Stiftung
سوشلسٹ بمقابلہ کمیونسٹ
جرمن سوشل ڈیموکریٹک جماعت دیگر یورپی ملکوں کے لیے ایک مثال بنی۔ اس جماعت کی مزدوروں کے حقوق کے لیے جنگ نظریاتی طور پر متاثرکن تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد بہت سے یورپی ملکوں میں مزدور تحریک سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کے مابین تقسیم ہوگئی۔ کیمونسٹ لینن (تصویر) نے سوویت یونین کی بنیاد رکھی، جو تقریباﹰ 70 برس قائم رہا۔
تصویر: Getty Images
نازیوں کے ہاتھوں یونینز کی تحلیل
تقسیم کے باوجود 1920ء کی دہائی میں مزدور تحریک اپنے عروج پر تھی۔ یونینز کے پہلے کبھی بھی اتنے زیادہ رکن نہیں تھے۔ جرمنی میں نیشنل سوشلسٹوں کے اقتدار میں آنا ان کے لیے خاتمے کا سبب بنا۔ آزاد یونینز کو تحلیل کر دیا گیا۔ بہت سے یونینز عہدیداروں کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا اور چند ایک کو پھانسی بھی دی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ڈی ڈی آر میں بغاوت
دوسری عالمی جنگ کے بعد ڈی ڈی آر میں آزاد جرمن ٹریڈ یونین فیڈریشن (FDGB) کی چھتری تلے اور اتحادیوں کے زیرنگرانی یونینز کو دوبارہ فعال ہونے کی اجازت دے دی گئی۔ 17 جون 1953ء کو وہاں بغاوت کا سماں تھا۔ لاکھوں کی تعداد میں مزدور کارکنوں نے سیاسی قیادت کے خلاف مظاہرہ کیا۔ سوویت فوجیوں نے فسادات کو کچل دیا۔ اس وقت FDGB حکومت کے ساتھ تھی۔
تصویر: picture-alliance / akg-images
مزدور تحریک بغیر مزدوروں کے
سن 1945ء کے بعد جمہوری ریاستوں میں مزدور تحریک کی اہمیت میں نمایاں کمی ہوئی۔ بہت ہی کم صنعتی کارکن یونینز کے رکن تھے۔ اس کے علاوہ 1960ء اور 70ء کی دہائی میں خواتین اور ماحول سے متعلق نئی تحریکیں ابھر کر سامنے آئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یونین کے صدر سے ملکی صدر
جو مزدور یونین ملکی سرحدوں سے بھی باہر نام بنانے میں کامیاب رہی وہ پولینڈ کی ’یکجہتی‘ نامی تنظیم تھی۔ اس کی بنیاد 1980ء میں رکھی گئی اور چند ماہ بعد ہی یہ ایک عوامی تحریک میں بدل گئی۔ دس برس بعد اس کا سیاست میں کردار انتہائی اہم تھا۔ اس کے پہلے چیئرمین لیک والیسا 1990ء میں پولینڈ کے صدر بنے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آج کی مزدور تحریک
آج بھی ٹریڈ یونینز اور بائیں بازو کی جماعتیں بہترکام اور اچھے حالات زندگی کے ساتھ ساتھ، کم اجرتوں اور کام کی جگہ پر امتیازی سلوک کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ آج یکم مئی کو لیبر ڈے کے موقع پر جرمن ٹریڈ یونین فیڈریشن (DGB) نے اپنا موٹو ’’بہتر کام، سوشل یورپ‘ رکھا ہے۔
تصویر: Getty Images
9 تصاویر1 | 9
اس سے قبل فرانس میں پینشن اصلاحات کے خلاف 1995ء میں ہڑتال کی گئی تھی، جو تقریباً تین ہفتوں تک جاری رہی تھی۔ حکومت کی کوشش ہوگی کہ اس ہڑتال کا دورانیہ اتنا طویل نہ ہو۔ 1995ء میں فرانس میں نقل و حمل کا نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا تھا اور معیشت کو بھی اچھا خاصا نقصان پہنچا تھا۔ اس ہڑتال کو بھی عوام کی زبردست حمایت ملی تھی اور پھر حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا تھا۔
آج کی ہڑتال کو صدر ماکروں کے لیے ایک کڑے امتحان سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ وہ اپنی پالیسیوں سے فرانس کو عالمی سطح پر ایک اہم مقام دلائیں گے۔ سیاسی مبصرین کی نظر میں ایمانوئل ماکروں تبدیلی لانے کی صلاحیت تو رکھتے ہیں لیکن یہ وقت بتائے کہ وہ کیا حاصل کر پاتے ہیں۔ مقامی ذرائع ابلاغ میں اس طرح کے سوالات بھی کیے جا رہے کہ کیا ہڑتال اور مظاہرے اتنے پر اثر ہوں گے کہ ماکروں کی اصلاحات کو روک سکیں؟