فرانس میں ہیڈ اسکارف پر پابندی غلط، اقوام متحدہ کی کمیٹی
4 اگست 2022
اقوام متحدہ کے مطابق فرانسیسی اسکولوں میں طالبات کے ہیڈ اسکارف پہننے پر پابندی لگا کر فرانس شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا۔ یہ فیصلہ عالمی ادارے کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے سنایا۔
اشتہار
سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا سے جمعرات چار اگست کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق فرانسیسی حکام ایک اسکول میں ایک خاتون کی طرف سے ہیڈ اسکارف پہن کر آنے کی وجہ سے اس پر پابندی لگا کر انسانی حقوق کے ایک بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔
اس بارے میں ایک شکایت 2016ء میں ایک ایسی فرانسیسی خاتون شہری کی طرف سے دائر کی گئی تھی، جو 1977ء میں پیدا ہوئی تھی۔ اس خاتون کا نام، مذہب اور دیگر شناختی کوائف اس کے وکیل کی درخواست پر ظاہر نہیں کیے گئے۔
اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کمیٹی کا فیصلہ
اس درخواست پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے کہا کہ فرانسیسی حکام کا اس خاتون پر اس کے ہیڈ اسکارف کے باعث پابندی لگا دینے کا فیصلہ شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی کنوینشن کے منافی تھا۔
یہ شکایت جس خاتون کی طرف سے دائر کی گئی تھی، وہ ہیڈ اسکارف کے باعث خود پر پابندی لگائے جانے کے وقت 2010ء میں ایک پیشہ وارانہ تربیتی کورس میں حصہ لینا چاہتی تھی اور اس کورس کے لیے اس نے داخلے کا امتحان اور انٹرویو دونوں پاس بھی کر لیے تھے۔
اسلام اور جدید طرز کے فیشن، مغربی دنیا میں کئی حلقوں کی طرف سے یہ ایک تضاد سے بھری بات قرار دی جاتی ہے۔ اس موضوع پر امریکی شہر سان فرانسسکو کے ڈی ینگ میوزیم میں منعقدہ نمائش 6 جنوری تک جاری رہے گی۔
تصویر: Sebastian Kim
جدید لیکن شائستہ
ڈی ینگ میوزیم میں رکھے گئے مسلم پہناوے جدیدیت اور شائستگی کے عناصر کے حامل خیال کیے گئے ہیں۔ مسلم ممالک میں مروج جدید فیشن کے ملبوسات ریشمی اور کرسٹل سے مزین ہیں۔ اس تصویر میں پہناوے کی ڈیزائننگ ملائیشیا کے فیشن ڈیزائنر برنارڈ چندرن نے کی ہے۔ چندرن ملائیشیا کی اشرفیہ میں ایک مقبول ڈیزائنر ہیں۔
تصویر: Fine Arts Museums of San Francisco
جکارتہ سے نیو یارک تک
ملائیشیا ہی کے ڈیان پیلانگی نے بھی اپنے فیشن ملبوسات کو مغرب میں متعارف کرایا ہے۔ اس نوجوان ڈیزائنر کے ملبوسات کو پہن کر لندن، میلان اور نیو یارک کے فیشن شوز میں مرد اور خواتین ماڈل کیٹ واک کر چکے ہیں۔
تصویر: Fine Arts Museums of San Francisco
سیاسی پیغام
ڈی ینگ میوزیم کا فیشن شو اصل میں ’اسلام سے خوف‘ سے جڑا ہوا ہے۔ ایک جیکٹ پر امریکی دستور کی پہلی شق کو عربی میں ترجمے کے ساتھ چسپاں کیا گیا ہے۔ امریکی آئین کی یہ شق آزادئ مذہب کی ضامن ہے۔ یہ جیکٹ لبنانی ڈیزائنر سیلین سیمعن ورنون کی کاوش ہے۔ یہ لبنانی فیشن ڈیزائنر سن انیس سو اسّی کی دہائی میں کینیڈا بطور مہاجر پہنچی تھیں لیکن بعد میں وہ امریکا منتقل ہو گئی تھیں۔
تصویر: Sebastian Kim
ٹرمپ کی ’مسلمانوں پر پابندی‘ کا ایک جواب
سیلین سیمعن نے اپنے ڈیزائن کردہ ملبوسات کو عصری سیاسی رویوں سے مزین کیا ہے۔ انہوں نے ’بین‘ یعنی پابندی کے لفظ کو اپنے سکارف پر واضح انداز میں استعمال کیا ہے۔ چند اسکارفس پر ایسے ممالک کی سیٹلائٹ تصاویر پرنٹ ہیں، جو امریکی صدر ٹرمپ کی عائد کردہ پابندی سے متاثر ہوئے۔ اس تصویر میں نظر آنے والی ماڈل ایرانی نژاد امریکی شہری ہُدیٰ کاتبی ہیں۔
تصویر: Fine Arts Museums of San Francisco/Driely Carter
اسپورٹس فیشن
اس نمائش میں ملبوسات، جیکٹس اور اسکارفس کے علاوہ اسپورٹس فیشن سے جڑے لباس بھی رکھے گئے ہیں۔ ان میں نائکی کا حجاب اور احدہ زانیٹی کی متنازعہ برکینی بھی شامل ہیں۔ اس برکینی کو سن 2016 میں فرانس میں عبوری مدت کے لیے پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔
تصویر: DW/A. Binder
طرز تعمیر کی علامتی طاقت
ڈی ینگ میوزیم کے نمائشی ہال کو مشہور تعمیراتی فرم حریری اینڈ حریری نے ڈیزائن کیا ہے۔ یہ تعمیراتی فرم دو ایرانی نژاد امریکی بہنوں کی ہے۔ نمائش دیکھنے والے اس ہال کے سحر میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ نمائش فرینکفرٹ اور میلان میں بھی کی جائے گی۔
تصویر: DW/A. Binder
سوشل نیٹ ورکس: اظہار کے مقام
اس نمائش کو مسلم دنیا کے درجنوں بلاگرز، فیشن جریدوں اور سرگرم کارکنوں سے معنون کیا گیا ہے۔ اس نمائش میں جدید عصری مسلم دنیا کے فیشن ملبوسات کے کئی پہلوؤں کو سمو دیا گیا ہے۔ سان فرانسسکو میں یہ نمائش اگلے برس چھ جنوری تک جاری رہے گی۔
تاہم پیرس کے ایک جنوب مشرقی مضافاتی علاقے میں لانگوَیں والَوں (Langevin Wallon) نامی ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے اس خاتون کو اس لیے اس ٹریننگ کورس میں حصہ لینے سے روک دیا تھا کہ وہ اپنے ہیڈ اسکارف کی صورت میں 'ایک مذہبی علامت‘ پہنے ہوئی تھی اور اس بات کی فرانس کے عوامی تعلیمی اداروں میں اجازت نہیں تھی۔
'فرانس کو ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت‘
بتایا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے اس فرانسیسی خاتون شہری کی درخواست پر اپنا فیصلہ اس سال مارچ میں ہی کر لیا تھا مگر تب اس کا کوئی باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ اس کمیٹی کی طرف سے اس فیصلے کی دستاویز درخواست دہندہ خاتون کے وکیل کو بدھ تین اگست کے روز بھیجی گئی۔
اس خاتون کے وکیل صفین گوئز گوئز نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''یہ ایک انتہائی اہم فیصلہ ہے، جو ثابت کرتا ہے کہ فرانس کو اپنے ہاں مذہبی اقلیتوں، خاص کر مسلم اقلیتی برادری کے افراد بالخصوص خواتین کے انسانی حقوق کے حوالے سے اب تک کے مقابلے میں کہیں زیادہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
م م / ک م (اے ایف پی)
یورپ میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ممالک
امریکی ریسرچ سنٹر PEW کے مطابق یورپ میں مسلم آبادی بڑھ رہی ہے۔ اس وقت یورپ میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 4.9 فیصد ہے جبکہ 2050ء تک یہ 7.5 فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔ یورپ کے کن ممالک میں مسلمانوں کی کتنی تعداد آباد ہے؟