فرانس: نوجوانوں کے ’خوابوں کے سوداگر‘ جہادی
15 اپریل 2016یاسین فرانس کے دارالحکومت فرانس کے مضافات میں واقع ایک مسجد میں بیٹھا تھا کہ چند نوجوانوں نے شام کے موضوع پر گفتگو شروع کر دی، ’’ہماری گفتگو کا آغاز ہی شام سے ہوا۔ اس کے بعد مقدس جنگ کی باتیں ہوئیں اور جلد ہی سبھی یہ باتیں کر رہے تھے کہ شہید جنت میں جائے گا اور یہ مرنے کا بہترین طریقہ ہے۔‘‘
اس سے اگلے جمعے کو یاسین نے مسجد سے جلدی نکلنے کی کوشش کی لیکن بھرتی کا کام کرنے والے لڑکے دوبارہ گپ شپ کے لیے اسے ایک کونے میں لے کر بیٹھ گئے اور دوبارہ غیر محسوس طریقے سے اس پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا۔
یاسین اب سوچتا ہے کہ اسے جہاد کے لیے بھرتی کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی اور وہ لوگ دیکھ چکے تھے کہ یہ لڑکا باقاعدگی سے مسجد میں آتا ہے۔ یاسین کہتا ہے کہ اس کے بعد اس نے مختلف مساجد میں جانا شروع کر دیا اور اگر وہ اس مخصوص مسجد میں جاتا بھی تھا تو نماز کے بعد فوری وہاں سے نکل آتا تھا۔
حال ہی میں پیرس اور برسلز میں ہونے والے حملے اس امر پر روشنی ڈالتے ہیں کہ جہادی تنظیمیں یورپ میں بنیادی طور پر غریب تارکین وطن کے علاقوں میں سرگرم ہیں اور وہاں بھرتیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
فرانس کے وزیر برائے کمیونیٹیز پیٹرک کینر کہتے ہیں کہ فرانس میں اس وقت تقریباﹰ ایک سو ایسے محلے ہیں، جہاں برسلز کے مضافاتی علاقے مولن بیک جیسے حالات ہیں۔ حالیہ حملوں کے پیچھے جن جہادیوں کا ہاتھ تھا، ان میں سے زیادہ تر ملزمان کا تعلق برسلز کے اسی علاقے سے تھا۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی نے پیرس کے مضافات میں واقع تارکین کے علاقوں میں نوجوانوں سے انٹرویوز کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ یاسین اور اس کے دوستوں کا کہنا ہے کہ ان کے کئی جاننے والے داعش میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔
یاسین کا کہنا ہے کہ یہ لوگ انہیں ایسی ویڈیوز اور تصاویر بھی بھیجتےتھے، جو انہوں نے ہلاک شدہ افراد کے ساتھ مسکراتے ہوئے لی تھیں۔ یاسین کا کہنا ہے، ’’اللہ کا شکر ہے کہ میرے والدین اور میرے بڑے بھائی کی مجھ پر نگاہ تھی۔‘‘
ایک دوسرے اٹھارہ سالہ طالب علم نسیم کا کہنا ہے کہ وہ خود تو کبھی بھی کسی ایسے شخص سے نہیں ملا، جو جہادیوں کے لیے بھرتی کا کام کر رہا ہو لیکن مارچ دو ہزار پندرہ میں اس کا ایک بچپن کا دوست اسکول کو خیر آباد کہتے ہوئے شام چلا گیا تھا اور اس کے ہمراہ پیرس کے مشرق میں رہنے والا ایک دوسرا لڑکا بھی تھا۔
فرانسیسی حکام کے اعداد و شمار کے مطابق ان کے دو ہزار سے زائد شہری جہادی سرگرمیوں میں ملوث ہیں جبکہ عراق اور شام میں جا کر داعش کے ہمراہ لڑنے والوں کی تعداد چھ سو سے بھی زائد بنتی ہے اور ان میں پچاسی نابالغ بھی شامل ہیں۔
آن لائن جہادی پروپیگنڈا کے حوالے سے مشاورت فراہم کرنے والی نادیہ دالی کہتی ہیں کہ جہادیوں کا سب سے اہم ہتھیار انٹرنیٹ بن چکا ہے، جس کے ذریعے وہ مایوس نوجوانوں کو جنت کے خواب دیکھاتے ہیں اور انہیں اپنی طرف مائل کرتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ داعش کے لیے بھرتیاں کرنے والے مختلف آن لائن یا فیس بک پیجز کی نگرانی کرتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی شامی بچے کی تصویر لائک کرتا ہے یا کوئی جذباتی کمینٹ لکھتا ہے تو وہ فوراﹰ جواب دینا شروع کر دیتے ہیں۔
نادیہ دالی اب مختلف اسکولوں میں ایسے سیمینارز کا انعقاد کرتی ہیں، جس میں بتایا جاتا ہے کہ نوجوان مسلمان کس طرح ایسے ہتھکنڈوں سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔