1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرانس نو آبادیاتی ماضی کا سامنا کرے، سماجی ماہر امیر معظمی

Kersten Knipp / امجد علی29 اگست 2016

جرمن دارالحکومت برلن کی فری یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر شیریں امیر معظمی نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ فرانس میں ’بُرقینی‘ پر بحث سطحی ہے اور ضروری ہے کہ یہ ملک اپنے نوآبادیاتی ماضی کا سامنا کرے۔

Frankreich Frau mit Burkini am Strand von Marseille
فرانس کی اعلیٰ عدالت نے متعدد فرانسیسی شہروں کی جانب سے مسلمان خواتین کے پیراکی کے لباس ’بُرقینی‘ کے استعمال پر عائد کی گئی پابندی ختم کر دی تھیتصویر: picture-alliance/AP Photo

فرانس کے متعدد شہروں میں مسلمان خواتین کی جانب سے پیراکی کے لباس ’بُرقینی‘ کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی تھی تاہم اب فرانس کی ریاستی کونسل نے اس اقدام کو خلافِ آئین قرار دے دیا ہے۔

اس حوالے سے ایک سوال کے جواب میں پروفیسر شیریں امیر معظمی نے، جو برلن کی فری یونیورسٹی کے اسلامی امور کے انسٹیٹیوٹ میں ’اسلام اِن یورپ‘ نامی شعبے کی سربراہ بھی ہیں، ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ فرانس میں پَے در پَے دہشت گردانہ حملوں کے بعد پہلے حجاب اور پھر بُرقینی پر پابندی اس امر کا علامتی اظہار تھی کہ ملک کو ایک بڑا خطرہ درپیش ہے اور اس طرح کے اقدامات کرتے ہوئے دراصل ملک اس خطرے کے تدارک کے اقدامات کر رہا ہے۔

ساتھ ہی پروفیسر شیریں امیر معظمی نے یہ بھی کہا کہ یورپ بھر میں صرف ترکی اور فرانس ہی ایسی سیکولر ریاستیں ہیں ،جہاں ریاست اور مذہب کے الگ الگ ہونے کا نکتہ باقاعدہ آئین میں درج کیا گیا ہے۔

دوسری طرف چونکہ ریاست کا کام طرزِ معاشرت پر بھی نظر رکھنا ہے، اس لیے بقول امیر معظمی فرانسیسی ریاست ایک مشکل کا بھی شکار ہے کیونکہ اکثر یہ بات غیر واضح ہوتی ہے کہ سیاست کی حدیں کہاں ختم ہوتی ہیں اور مذہب کی کہاں سے شروع ہوتی ہیں۔

امیر معظمی کے مطابق فرانس کا ایک نوآبادیاتی ماضی ہے اور جو کچھ آج کل فرانس میں دیکھنے میں آ رہا ہے، وہ اسی ماضی کے اب آ کر ظاہر ہونے والے اثرات ہیں۔ فرانس کو اپنے اس ماضی کا سامنا کرنا ہو گا۔

برلن کی فری یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر شیریں امیر معظمیتصویر: Freie Universität Berlin

انہوں نے کہا کہ الجزائر یا دیگر شمالی افریقی ممالک کے مسلمان اس لیے فرانس نہیں آئے کہ وہ یہاں اسلام رائج کرنا چاہتے تھے بلکہ وہ تو فرانس کے نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد تارکینِ وطن کے طور پر فرانس آئے تھے۔

پروفیسر شیریں امیر معظمی کے مطابق فرانس کی ریاستی کونسل کا ’بُرقینی‘ پر پابندی کو خلافِ آئین قرار دینے کا تازہ فیصلہ دانشمندانہ ہے۔ اس فیصلے سے معاشرے میں جاری تقسیم کے اُس عمل کو روکنے میں مدد ملے گی، جس کی ابتدائی علامات جرمنی میں بھی نظر آ رہی ہیں۔

سماجی امور کی اس خاتون ماہر کا کہنا تھا کہ فرانس ہو یا جرمنی، اہم بات یہ ہے کہ مسلمان ایک پِسا ہوا طبقہ بن گئے ہیں اور اصل ضرورت سماجی انصاف اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کی ہے۔ مذہبیت کی مختلف اَشکال کا معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی حالات سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس سماجی ماہر نے طبقاتی جنگ کو فرانس کا اصل مسئلہ قرار دیا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں