فرانس: پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کے خلاف زیادہ سخت قوانین
شمشیر حیدر
11 نومبر 2017
فرانسیسی ایوان زیریں میں پناہ کے مسترد شدہ درخواست گزاروں کے خلاف سخت اقدامات کرنے سے متعلق قانون سازی کے حوالے سے بحث کی جا رہی ہے۔ اس بل کو اگلے برس کے آغاز پر قانونی حیثیت مل جائے گی۔
اشتہار
بدھ آٹھ نومبر کے روز ملکی ایوان زیریں سے خطاب کرتے ہوئے فرانسیسی وزیر داخلہ جیرارڈ کولمبو کا کہنا تھا کہ حکومتی اندازوں کے مطابق فرانس میں کسی بھی طرح کی قانونی دستاویزات کے بغیر رہنے والے غیر ملکیوں کی تعداد تین لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
صدر ایمانوئل ماکروں کی حکومت نے فرانس میں بسنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کے انضمام کے لیے کئی اقدامات کرنے کا اعلان کر رکھا ہے اور ان اقدامات کو مہاجرت سے متعلق نئے فرانسیسی قوانین میں بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ حکومت پناہ کے مسترد شدہ درخواست گزاروں کے خلاف بھی سخت ترین اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
فرانس میں بھی پناہ کی درخواستوں کے انفرادی جائزے
فرانسیسی وزیر داخلہ کے مطابق اب فرانس میں بھی سیاسی پناہ کی درخواستوں کا جائزہ لینے کے لیے ایسے سخت قوانین تشکیل دیے جا رہے ہیں جن کے تحت پناہ کی ہر درخواست کا انفرادی طور پر، تیزی سے اور بغور جائزہ لیے جانے کے بعد ہی پناہ دینے کے بارے میں فیصلے کیے جائیں گے۔
نئے قوانین میں معاشی بنیادوں پر ترک وطن کرنے والے پناہ کے متلاشی افراد کو روکنے کے لیے بھی اقدامات یقینی بنائے جا رہے ہیں۔ پیرس حکام خاص طور پر افریقی ممالک سے فرانس کی جانب مہاجرت روکنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں اور اس ضمن میں افریقی ملک نائجر کے ساتھ پناہ گزینوں کو روکنے کے لیے مشترکہ اقدامات پر اتفاق بھی کیا جا چکا ہے۔
درخواست مسترد تو ماہانہ خرچہ بھی بند
موجودہ فرانسیسی قوانین کے مطابق کسی بھی تارک وطن کو اس کی پناہ کی درخواست مسترد ہونے کے ایک ماہ بعد تک جیب خرچ ادا کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ڈبلن معاہدے کے تحت ملک بدر کیے جانے والے پناہ گزینوں کو بھی ان کی فرانس سے ملک بدری تک ہر ماہ خرچہ ملتا رہتا ہے۔
یورپ میں اچھے مستقبل کا خواب، جو ادھورا رہ گیا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔
تصویر: DW/G. Harvey
8 تصاویر1 | 8
صدر ایمانوئل ماکروں کی حکومت نئی قوانین میں اس حوالے سے بھی سختی کا ارادہ رکھتی ہے۔ ملکی وزیر داخلہ نے ایوان زیریں میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات قابل قبول نہیں کہ پناہ کی درخواست مسترد ہو جانے کے حتمی فیصلے کے بعد بھی تارکین وطن فرانسیسی حکومت سے ماہانہ خرچہ وصول کرتے رہیں۔ نئے قانونی مسودے میں تجویز دی گئی ہے کہ آئندہ تارکین وطن کو درخواست رد ہونے کے حتمی فیصلے کے صرف ایک ماہ بعد تک جیب خرچ دیا جائے گا۔
ملک بدریوں میں اضافہ
فرانس آنے والے زیادہ تر تارکین وطن کسی دوسرے یورپی ملک کی حدود سے گزر کر فرانس پہنچتے ہیں۔ ایسے پناہ کے متلاشی افراد کو ڈبلن قوانین کے تحت واپس اسی یورپی ملک بھیجا جانا ہوتا ہے، جس کی سرحد سے وہ یورپی یونین کی حدود میں داخل ہوئے ہوں۔
ڈبلن قوانین کے تحت تارکین وطن کی فرانس سے ملک بدری کی شرح کافی کم ہے اور اب تک صرف دس فیصد پناہ گزینوں کو ہی کسی دوسرے یورپی ملک بھیجا گیا ہے۔ نئے اقدامات کے تحت اگلے برس سے فرانس سے پناہ کے مسترد شدہ درخواست گزاروں کی ملک بدریوں میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔
تارکین وطن کی حراست
مجوزہ فرانسیسی قوانین میں ملک بدریوں کے منتظر پناہ کے مسترد شدہ درخواست گزاروں کی حراست کا دورانیہ پینتالیس دن سے بڑھا کر نوے دن، یعنی دگنا کر دیے جانے کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔ فرانسیسی حکومت نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ اگلے برس سے لاگو ہونے والے ان قوانین کے تحت نوے دن کی اس مجوزہ مدت میں عدالتی حکم کے بعد مزید پندرہ روز کا اضافہ بھی کیا جا سکے گا۔
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران کس یورپی ملک نے غیر قانونی طور پر مقیم کتنے پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا اور کتنے پاکستانی شہری اس ملک سے چلے گئے؟ اس بارے میں یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار:
تصویر: picture alliance/dpa/J. Kalaene
برطانیہ
یورپی ملک برطانیہ سے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران قریب چالیس ہزار پاکستانی شہری غیر قانونی طور پر مقیم تھے جنہیں انتظامی یا عدالتی حکم کے تحت ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس عرصے میں ستائیس ہزار سے زائد پاکستانی برطانیہ چھوڑ کر واپس اپنے وطن یا کسی دوسرے غیر یورپی ملک گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
یونان
یورپی یونین کی بیرونی سرحد پر واقع ملک یونان سے پچھلے پانچ برسوں میں تینتالیس ہزار پاکستانی شہری ایسے تھے جنہیں یونان میں قیام کی قانونی اجازت نہیں تھی اور انہیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس عرصے میں سولہ ہزار سات سو پاکستانی یونان چھوڑ کر گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Lafabregue
فرانس
فرانس نے جنوری سن 2012 اور دسمبر 2016 کے درمیان غیر قانونی طور پر وہاں موجود ساڑھے گیارہ ہزار پاکستانیوں کو فرانس سے چلے جانے کا حکم دیا۔ اس عرصے میں تاہم 2650 پاکستانی شہری فرانس چھوڑ کر گئے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Widak
سپین
اسی دورانیے میں اسپین میں حکام یا عدالتوں نے جن پاکستانی باشندوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا ان کی تعداد پونے آٹھ ہزار بنتی ہے۔ یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق ان پانچ برسوں میں ساڑھے چھ سو پاکستانی اسپین سے واپس اپنے وطن یا کسی دوسرے غیر یورپی ملک چلے گئے۔
تصویر: dapd
بیلجیئم
بیلجیئم میں حکام نے ان پانچ برسوں میں قریب ساڑھے پانچ ہزار ایسے پاکستانیوں کو اپنی حدود سے نکل جانے کا حکم دیا، جنہیں بلیجیم میں قانونی طور پر قیام کی اجازت نہیں تھی۔ اس عرصے میں ملک سے چلے جانے والے پاکستانیوں کی تعداد 765 رہی۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Dunand
جرمنی
سن 2012 میں جرمنی میں محض پونے چار سو پاکستانی ایسے تھے جنہیں لازمی طور پر ملک جرمنی سے جانا تھا تاہم سن 2016 میں ایسے افراد کی تعداد چوبیس سو تھی اور ان پانچ برسوں میں مجموعی تعداد پانچ ہزار کے قریب بنتی ہے۔ یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق اس دورانیے میں 1050 پاکستانی باشندے عدالتی یا انتظامی حکم کے تحت جرمنی سے چلے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
آسٹریا
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران آسٹریا سے مجموعی طور پر 3220 پاکستانی باشندوں کو ملکی حدود سے نکل جانے کا حکم دیا گیا تھا اور اس دوران 535 پاکستانی آسٹریا چھوڑ گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Stringer
ہنگری
ہنگری نے بھی سن 2012 سے لے کر 2016 کے اختتام تک قریب تین ہزار پاکستانیوں کو غیر قانونی طور پر مقیم قرار دے کر ملک چھوڑنے کا حکم دیا، تاہم اس دوران ہنگری کی حدود سے چلے جانے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد قریب پندرہ سو رہی۔
تصویر: Jodi Hilton
اٹلی
انہی پانچ برسوں کے دوران اطالوی حکام نے بھی ڈھائی ہزار سے زائد غیر قانونی طور پر وہاں مقیم پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔ یورو سٹیٹ کے مطابق اس عرصے میں اٹلی سے چلے جانے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد محض چار سو افراد پر مبنی رہی۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello
یورپ بھر میں مجموعی صورت حال
مجموعی طور پر اٹھائیس رکنی یورپی یونین کے رکن ممالک میں ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد پاکستانی غیر قانونی طور پر مقیم تھے اور انہیں عدالتی یا انتظامی حکم کے تحت ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ مجموعی طور پر 54 ہزار سات سو سے زائد پاکستانی یورپی یونین کے رکن ممالک سے چلے گئے۔