1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستفرانس

فرانس میں پولیس کے ہاتھوں نوجوان کی ہلاکت پر ہنگامے جاری

30 جون 2023

فرانس میں پولیس اہلکار کے ہاتھوں ایک نوجوان کی ہلاکت پر شدید عوامی غصہ پایا جاتا ہے، جس کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ اب یہ بدامنی ہمسایہ ملک بیلجیم تک پھیل چکی ہے۔

Frankreich | Anhaltende Proteste und Ausschreitungen nach dem Tod des 17-jährigen Nahel,
تصویر: Aurelien Morissard/AP/picture alliance

فرانس میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان تیسری رات بھی جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا جبکہ حکام کے مطابق اس دوران 400 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ پیرس میں پولیس کی بھاری نفری کے باوجود دکانوں میں توڑ پھوڑ اور کاروں کو آگ لگانے جیسے واقعات پیش آئے۔

فرانس میں بچوں پر حملہ، پانچ افراد زخمی

پر تشدد مظاہروں پر قابو پانے کے لیے فرانس بھر میں 40,000 سے زائد پولیس افسران کو تعینات کیا گیا ہے۔

فرانسیسی استاد کے قتل کی تعریف پر برطانوی شہری کو قید کی سزا

پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ منگل کے روز اس وقت شروع ہوا، جب پولیس نے الجزائر اور مراکش سے تعلق رکھنے والے ایک 17 سالہ لڑکے ناہیل ایم کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

فرانس میں صدر ماکروں کے خلاف احتجاج اور ملک گیر ہڑتال

مظاہروں کے دوران سینکڑوں گرفتاریاں

فرانسیسی وزیر داخلہ جیرالڈ درمانین کے دفتر کا کہنا ہے کہ جمعے کی صبح تقریباً تین بجے تک ملک بھر میں کم از کم 421 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ لے فیگارو اخبار کے مطابق ان میں سے نصف سے زیادہ گرفتاریاں پیرس میں ہوئی ہیں۔

اخبار کے مطابق گرفتار شدگان میں سے بیشتر کی عمریں 14 سے 18 سال کے درمیان ہیں۔

ایک سینیئر پولیس افسر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’پولیس کے ساتھ براہ راست کوئی بہت زیادہ پرتشدد تصادم نہیں ہے، تاہم بہت سی دکانوں میں توڑ پھوڑ، لوٹ مار یا یہاں تک کہ املاک کو جلانے کے واقعات ہوئے ہیں۔‘‘

جمعے کی صبح تقریباً تین بجے تک ملک بھر میں کم از کم 421 افراد کو گرفتار کیا گیا اور اطلاعات کے مطابق ان میں سے نصف سے زیادہ گرفتاریاں پیرس میں ہوئی ہیںتصویر: Dursun Aydemir/AA/picture alliance

پولیس نے 'ایک عرب چہرہ دیکھ کر' گولی ماری، متاثرہ کی ماں

ہلاک ہونے والے نوجوان کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں ان کے بیٹے کو نسلی بنیادوں پر ہلاک کیا گیا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ انہیں پولیس فورس کے خلاف کوئی رنجش نہیں ہے۔

والدہ کا نام مونیہ بتایا گیا ہے، جو میڈیکل سیکٹر میں کام کرتی ہیں۔ فائرنگ کے واقعے کے بعد انہوں نے اپنے پہلے بیان میں کہا، ’’میں پولیس کو مورد الزام نہیں ٹھہراتی، میں اس ایک شخص کو مورد الزام ٹھہراتی ہوں، جس نے میرے بیٹے کی جان لی ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’میرے کئی دوست ہیں، جو محکمہ پولیس میں ہیں۔ وہ مکمل طور پر میری حمایت کر رہے ہیں، جو کچھ بھی ہوا، وہ اس سے متفق نہیں ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’جس پولیس افسر نے میرے بیٹے کو مارا، اس کے پاس بندوق چلانے کے علاوہ اور بھی کئی آپشنز تھے۔‘‘

مونیہ کا مزید کہنا تھا، ’’اسے میرے بیٹے کو مارنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ایک گولی؟ اس کے سینے کے اتنے قریب؟ نہیں، نہیں۔ پولیس افسر نے ایک عرب چہرہ دیکھا، ایک چھوٹا بچہ، اور وہ اس کی جان لینا چاہتا تھا۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ یہ کب تک چلے گا؟ کتنے اور بچے ایسے ہلاک کیے جائیں گے؟ آخر اور کتنی مائیں اپنے آپ کو مجھ جیسی پائیں گی؟

نوجوان کو قتل کرنے والے پولیس نے معافی مانگی

منگل کے روز ایک پولیس اہلکار نے پیرس کے مضافاتی علاقے میں ایک فرانسیسی نوجوان کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا، جس سے ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے۔ پولیس کے ایک وکیل لینارڈ کا کہنا ہے کہ حراست میں رہتے ہوئے افسر  نے متاثرہ خاندان سے معافی مانگی ہے۔

وکیل نے فرانسیسی نشریاتی ادارے بی ایف ایم ٹی وی سے بات چیت میں کہا کہ انہوں نے جو پہلے اور آخری الفاظ ادا کیے وہ اس خاندان سے معذرت کے لیے تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا، "وہ پوری طرح ٹوٹ چکا ہے، وہ صبح لوگوں مارنے کے لیے نہیں اٹھتا ہے۔"

 لینارڈ نے کہا کہ وہ جمعے کو اپنے مؤکل پر عائد کردہ الزامات کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔ ان پر رضاکارانہ طور پر قتل کرنے کا الزام لگایا گیا ہے اور وہ فی الوقت حراست میں ہیں۔

بدامنی مارسے اور برسلز تک پھیل چکی ہے

فرانس کے جنوبی بندرگاہی شہر مارسے میں پولیس اور نوجوانوں میں جھڑپوں کے بعد ملک بھر میں بدامنی کا سلسلہ جاری ہے۔ سیکڑوں نوجوانوں کو شہر میں سڑکوں پر گھومتے اور کچرے کے ڈبوں کو آگ لگاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے تقریباً 400 افراد کے ہجوم کو منتشر کیا اور متعدد گرفتاریاں بھی کیں۔ جھڑپ میں ایک اہلکار کے زخمی ہونے کی بھی اطلاع ہے۔

ادھر پرتشدد مظاہرے اب فرانس کی سرحدوں سے نکل کر ہمسایہ ملک بیلجیم تک پہنچ گئے ہیں۔ برسلز پولیس نے جمعرات کی شام ہنگامہ آرائی کرنے کے الزام میں تقریباً ایک درجن افراد کو گرفتار کیا۔

  ہوا کیا تھا؟

27 جون منگل کے روز پیرس کے مضافاتی علاقے نانتیرے میں ایک پولیس افسر نے ایک 17 سالہ ڈیلیوری ڈرائیور ناہیل ایم کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

اس حوالے سے فرانسیسی خبر رساں اداروں نے ایک ویڈیو کی تصدیق کی ہے، جس میں دو پولیس افسران کو ایک گاڑی کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان میں سے ایک اہلکار اپنے ہتھیار سے ڈرائیور کی جانب نشانہ لے رہا ہے اور جب ڈرائیو گاڑی روکنے کے بجائے، چلا دیتا ہے، اسی وقت بہت ہی قریب سے پولیس اہلکار اس پر فائرنگ کرتا ہے۔

ڈرائیو کو گولی لگتی ہے اور اس کی کار کریش کرنے سے پہلے کچھ دور تک چلتی بھی ہے۔

واضح رہے کہ نوجوان ڈرائیور کے اہل خانہ کی نمائندگی کرنے والے وکلاء نے پولیس کے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا ہے کہ چونکہ ڈرائیور نے ان پر گاڑی چڑھانے کی دھمکی دی تھی اس لیے انہیں جان کا خطرہ لاحق تھا، اس لیے انہوں نے اس پر فائرنگ کی۔

ص ز/  (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

فرانس: پينشن اصلاحات کے خلاف لاکھوں شہریوں کا احتجاج

02:47

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں