فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے مالی سے تعلق رکھنے والے مہاجر محمدو گوساما سے ملاقات میں انہیں فرانسیسی شہریت کی پیشکش کر دی ہے۔ گوساما نے بہادری کی اعلیٰ مثال پیش کرتے ہوئے ہفتے کے روز ایک چار سالہ بچے کی جان بچائی تھی۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اٹھائیس مئی بروز پیر بتایا کہ فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے پیرس میں واقع صدارتی محل میں محمدو گوساما سے ملاقات میں ان کی بہادری کی تعریف کی اور انہیں فرانسیسی شہریت کی پیشکش کر دی۔
مالی سے تعلق رکھنے والے اس بائیس سالہ مہاجر نے ہفتے کے دن ’سپائڈر مین‘ کی طرح چار منزلوں پر چڑھتے ہوئے بالکونی میں لٹکے ہوئے ایک بچے کو محفوظ طریقے سے بچایا تھا۔
اس موقع پر پیرس کے رہائشیوں نے ویڈیوز بھی بنائیں، جو بعد ازاں سوشل میڈیا پر جاری کر دی گئی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان میں سے ایک ویڈیو وائرل بھی ہو گئی اور لاکھوں لوگوں نے گوساما کی بہادری کی تعریف شروع کر دی۔
’ایک مہاجر یا سپائڈر مین‘
00:46
صارفین نے کہا کہ اس مہاجر نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر بچے کی جان بچائی ہے۔ اس کارنامے کی وجہ سے ملکی میڈیا گوساما کو فرانس کے ایک ’قومی ہیرو‘ کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
پیر کے دن صدر ماکروں نے گوساما سے ملاقات میں کہا کہ ان کے پناہ کے کاغذات پر کارروائی کی جائے گی۔ مختلف نشریاتی اداروں پر براہ راست نشر کی جانے والی اس ملاقات میں ماکروں نے گوساما کو بہادری کے تمغے سے بھی نوازا اور کہا کہ وہ فرانس کی فائر سروس میں ملازمت اختیار کریں۔
اس موقع پر گوساما نے فرانسیسی صدر کو بتایا کہ جب انہوں نے ایک عمارت کی چوتھی منزل کی ایک بالکونی پر ایک بچے کو لٹکتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے کچھ سوچے سمجھے بغیر اسے بچانے کا ارادہ کر لیا تھا۔
بہادری کا میڈل وصول کرنے پر گوساما نے کہا کہ وہ بہت خوش ہیں کیونکہ پہلی مرتبہ انہیں اس طرح کا کوئی انعام دیا گیا ہے۔ وہ ستمبر سن دو ہزار سترہ میں فرانس پہنچے تھے۔ فرانسیسی صدر کے علاوہ پیرس کے میئر اور دیگر اعلیٰ حکام نے بھی گوساما کی بہادری کی تعریف کی ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق ہفتے کے دن جب یہ بچہ بالکونی کی بیرونی طرف لٹکا تو اس وقت اس بچے کے والدین گھر میں نہیں تھے۔ بتایا گیا ہے کہ پولیس نے اس بچے کے والد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لے لیا ہے۔ پولیس کے مطابق تب اس بچے کی والدہ پیرس شہر سے باہر گئی ہوئی تھیں۔
ع ب / م م / خبر رساں ادارے
'موت کے راستے‘ پر زندگی داؤ پر لگاتے افغان مہاجر لڑکے
بیشتر تارکینِ وطن کو اٹلی سے فرانس کے درمیان بارڈر کراس کرنے کے لیے جس راستے پر سفر کرنا پڑتا ہے اسے ’ڈیتھ پاس‘ یا موت کا راستہ کہتے ہیں۔ یہ راستہ بے حد پُر خطر ہے۔ اس سفر کا اختتام بعض اوقات موت پر ہوتا ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
جنگل میں
پولیس کے تعاقب سے خوفزدہ کم سن افغان لڑکوں کا ایک گروپ بارہ کلو میٹر لمبے ٹریک پر روانہ ہے۔ یہ راستہ ’ڈیتھ پاس ‘ کہلاتا ہے جو اونچی نیچی ڈھلانوں اور خطرناک پہاڑوں پر مشتمل ہے اور فرانس کے سرحدی قصبے ’مونتوں‘ تک جاتا ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
ایک دھوکے باز راستہ
وہ تارکین وطن جو اٹلی سے فرانس جانے کے لیے اس راستے کا انتخاب کرتے ہیں اُنہیں سفر کے دوران پتہ چلتا ہے کہ اس راستے پر چلتے ہوئے ہر پل موت کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ دلدلی زمین، خطرناک موڑ اور پہاڑوں کا سفر بعض اوقات مہلک ثابت ہوتا ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
زیرِزمین ٹنل
بہت سے مہاجرین فرانس جانے کے لیے جنگلات سے گزر کر ہائی وے تک جاتے ہیں جو اُنہیں اس باڑ تک لے آتی ہے۔ یہاں سے وہ ایک زیرِ زمین ٹنل سے پیدل گزرتے ہیں جو خود کو موت کے منہ میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
فطرت پر انحصار
وہ تارکین وطن جو فرانس جانے کے لیے ’ڈیتھ پاس‘ کا انتخاب کرتے ہیں، عموماﹰ وہ یہ اقدام راستے کے بارے میں معلومات حاصل کیے بغیر اور کھانے پینے کا سامان ہمراہ لیے بغیر ہی اٹھا لیتے ہیں۔
تصویر: DW/F.Scoppa
بوڑھے کسانوں کے اسٹور ہاؤس
مہاجرین اور تارکین وطن کبھی کبھار بوڑھے کسانوں کے خالی اسٹور ہاؤسز کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہاں اُنہیں پرانے کپڑے بھی مل جاتے ہیں۔ اپنے نسبتاﹰ صاف اور نئے کپڑوں کے مقابلے میں یہ پرانے کپڑے تبدیل کر کے تارکینِ وطن سمجھتے ہیں کہ اس طرح اُنہیں فرانس کی پولیس سے چھپنے میں مدد ملے گی۔
تصویر: DW/F.Scoppa
اٹلی اور فرانس کی سرحد پر
اٹلی اور فرانس کی سرحد پر نصب ایک پرچم سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ کس مقام سے سرحد کے دوسری طرف جا سکتے ہیں۔ یہ باڑ فرانس نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد اٹلی کی جانب سے امیگریشن روکنے کے لیے تعمیر کی تھی۔
تصویر: DW/F.Scoppa
اب کیا کریں؟
افغان مہاجر لڑکے اندازہ لگا رہے ہیں کہ وہ فرانس کے قصبے مونتوں تک جانے کے لیے نیچے ڈھلانی راستے سے کس طرح اتریں۔ اس مقام پر اکثر تارکینِ وطن کو بارڈر پولیس پکڑ لیتی ہے اور اُنہیں واپس اٹلی بھیج دیا جاتا ہے۔