فرانس یورپ میں دہشت گردی کا مرکز کیوں؟
15 جولائی 2016فرانس کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں کا سفر سب سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ ایسے ملک کو پے در پے دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بنانا بہت ہی منظم اور اثر و رسوخ کے اعتبار سے غیر معمولی طور پر مضبوط تنظیم کا ہی کام ہو سکتا ہے۔
جمعرات کی شب فرانس کے جنوبی شہر نِیس میں قومی دن کی تقریبات کے موقع پر ایک تیز رفتار ٹرک سے ایک ہجوم کو کچل دیے جانے کی دہشت گردانہ کارروائی، جس کے نتیجے میں 84 افراد ہلاک ہو گئے، کے پیچھے کارفرما عناصر کے بارے میں بین الاقوامی مبصر اور تجزیہ نگار وں کی رائے سامنے آ رہی ہے۔
فرانس کو مغربی فلسفے کا گہوارہ سمجھا جاتا ہے۔ آسٹریلیا میں قائم انٹر نیشنل ٹیرراِزم تھنک ٹینک ’انٹیلیجنس رسکس‘ کے چیف ایگزیکٹیو نیل فیرگُس کے مطابق فرانس آئی ایس کے دہشت گردانہ حملوں کا مرکزی ہدف اس لیے بنا ہے کہ یہ ملک آزادی، مساوات اور سماجی اقدار کے چراغ راہ کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ کئی دیگر تجزیہ کاروں کی طرح نیل کا بھی یہی کہنا ہے کہ شام اور عراق میں داعش یا آئی ایس کے خلاف جنگ میں فرانس کی شمولیت کی وجہ سے بھی فرانس دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ ابھی حال ہی میں فرانسیسی صدر نے اپنا ایئر کرافٹ کیریئر ’چارلس ڈیگال‘ کو عراق اور شام بھیجنے کی بات کی تھی تاکہ وہاں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجوؤں کے خلاف امریکی قیادت میں جاری فوجی آپریشن کو تقویت ملے۔
ابھی تک کسی نے نیس میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائی کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ بظاہر اس واقعے میں ’دولتِ اسلامیہ‘ یا داعش کی طرز کے حملوں کی تمام علامات پائی جاتی ہیں۔ فرانس میں جہادیوں کے حملوں کا سلسلہ 90 کی دہائی سے شروع ہوا۔ اُس وقت فرانس میں سرگرم ’آرمڈ اسلامک گروپ‘ یا AIG نے فرانس کے میٹرو ریلوے سسٹم پر حملہ کیا تھا۔ اس حملے بھی الجزائر سے تعلق رکھنے والے مسلم عسکریت پسند شامل تھے۔ دیگر ممالک کے علاوہ تیونس، الجزائر اور مراکش جیسے شمالی افریقی ممالک بھی فرانس کی نو آبادیوں میں شامل تھے۔ گزشتہ کئی عشروں سے انہی ممالک کے مسلم تارکین وطن فرانس آ کر آباد تو ہوئے تاہم نہ تو انہوں نے خود کو فرانسیسی معاشرے میں مکمل طور پر ضم کیا نہ ہی فرانسیسی حکومت نے انہیں انضمام کے مکمل مواقع فراہم کیے۔ یہ تارکین وطن فرانس میں ’گیٹوز‘ میں رہتے ہیں اور انہوں نے ایک متوازی معاشرہ بنا رکھا ہے۔
نیل فیرگُس کے مطابق فرانسیسی حکام انسداد دہشت گردی کی اپنی مہم کے سلسلے میں پیرس اور اس کے ارد گرد 150 سے زائد کیسوں کی چھان بین کر رہے ہیں۔ فیرگُس، جو فرانسیسی حکام کے ساتھ مل کر پیرس کی ’سیفٹی اینڈ سکیورٹی‘ کے بارے میں کام کر رہے ہیں، نے ایک آسٹرین ویب سائٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’عراق کے موصل اور فلوجا جیسے اہم علاقوں میں داعش کو جو فوجی شکست ہوئی ہے، اور مستقبل قریب میں مزید ہوگی، اُس کا نتیجہ یہ ہے کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجو دنیا بھر میں پھیلتے جا رہے ہیں جس کے باعث دنیا کو مستقبل میں مزید دہشت گردانہ حملوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘‘
نیل فیرگُس نے نیس کے حملے کے بارے میں کہا،''حملوں کی موجودہ لہر کی حوصلہ افزائی شامی شہر الرقہ میں سرگرم النصرہ فرنٹ کی قیادت کی طرف سے کی گئی ہے۔‘‘