1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرقہ وارانہ تشدد: کرم میں 110 سے زائد اموات کے بعد سیزفائر

28 نومبر 2024

شمال مغربی پاکستان میں متحارب فریقوں نے بدھ کو 10 دن کی نئی فائر بندی پر اتفاق کر لیا۔ حکام نے بتایا کہ ایک ہفتے سے جاری پرتشدد واقعات میں ہلاکتوں کی تعداد 111 ہو گئی ہے۔

وزیراعلیٰ  نے کہا کہ فریقین کے درمیان جنگ بندی خوش آئند اقدام ہے
وزیراعلیٰ نے کہا کہ فریقین کے درمیان جنگ بندی خوش آئند اقدام ہےتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

صوبے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے دفتر نے، جہاں کرم ضلع واقع ہے، ایک بیان میں کہا، ''متحارب فریقوں کے درمیان دس روزہ جنگ بندی آج سے نافذ العمل ہو گئی ہے۔‘‘

یہ پیش رفت ایک ایسے وقت پر ہوئی ہے جب صوبائی حکام کے مطابق شیعہ اور سنی فرقوں کے درمیان ایک ہفتے سے جاری تشدد کے واقعات میں ہلاکتوں کی تعداد 111 تک پہنچ گئی۔ ان میں 79 شیعہ اور 32 سنی شامل ہیں۔ مزید 88 افراد زخمی بھی ہوئے۔

پاکستانی ضلع کرم میں ایک ہفتے میں ہلاکتوں کی تعداد اب نواسی

قومی سطح پر سنی مسلم اکثریتی آبادی والے ملک پاکستان کے شورش زدہ شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا کا ضلع کرم افغانستان کے ساتھ سرحد کے قریب واقع ہے۔ اس علاقے میں شیعہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ اسی وجہ سے کرم میں گزشتہ عشروں کے دوران بار بار فرقہ وارانہ تصادم دیکھنے میں آتا رہا ہے۔ وہاں بدامنی اور ہلاکتوں کی تازہ ترین لہر بھی اسی کشیدگی کا تسلسل ہے۔

صوبائی وزیر اعلیٰ کے دفتر نے مزید کہا کہ سیزفائر کو نافذ کرنے کے لیے کرم کے اہم مقامات پر فوجی دستے تعینات کیے جائیں گے اور ہلاک شدگان اور متاثرین کے لواحقین کو معاوضہ دیا جائے گا۔

کرم میں مسافر قافلے پر حملہ، ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ

اس بیان میں کہا گیا ہے، ''پائیدار امن کو یقینی بنانے کے لیے مذاکرات جاری رہیں گے۔‘‘

وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اس موقع پر کہا کہ فریقین کے درمیان جنگ بندی خوش آئند اقدام ہے اور پائیدار امن اور تنازعات کے حل کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے گا۔

گزشتہ جمعرات کو گھات لگا کر کیے گئے حملوں میں کم از کم 43 افراد مارے گئے تھےتصویر: Dilawer Khan/AFP/Getty Images

کرم میں فرقہ وارانہ تشدد کا دیرینہ سلسلہ

کرم میں تازہ ترین تشدد گزشتہ جمعرات کو اس وقت شروع ہوا جب شیعہ مسلمانوں کے دو علیحدہ علیحدہ قافلوں پر حملے کیے گئے تھے۔ ان قافلوں میں قریب پچاس گاڑیاں شامل تھیں جبکہ ان کی حفاظت کے لیے پولیس کی محض ایک گاڑی ساتھ تھی، جس میں پانچ اہلکار سوار تھے۔ گھات لگا کر کیے گئے ان حملوں میں کم از کم 43 افراد مارے گئے تھے۔

پاکستان میں مسلح افراد کا مسافر گاڑیوں پر حملہ، کم از کم 38 افراد ہلاک

مقامی شیعہ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پارا چنار اور پشاور کے درمیان سفر کرنے والوں کے لیے حفاظتی اقدامات کے جو وعدے کیے گئے تھے، وہ پورے نہیں کیے گئے تھے۔

صوبائی حکام نے اس تنازعے میں سات روزہ فائر بندی کے لیے کامیاب ثالثی بھی کی تھی لیکن اس پر عمل نہیں ہو سکا تھا۔

پولیس نے کرم میں، جو ماضی میں وفاق کے زیر انتظام نیم خود مختار قبائلی علاقوں کا حصہ تھا، تشدد پر قابو پانے کے لیے باقاعدگی سے جدوجہد کی، اس وقت تک جب 2018 ء میں سابقہ فاٹا علاقوں کو ضم کر کے خیبر پختونخوا کے باقاعدہ اضلاع بنا دیا گیا تھا۔

گزشتہ ماہ بھی کرم میں فرقہ وارانہ تصادم میں تین خواتین اور دو بچوں سمیت کم از کم 16 افراد مارے گئے تھے۔

ایک غیر حکومتی ادارے کے طور پر کام کرنے والے پاکستان کے انسانی حقوق کے کمیشن کے مطابق ملک میں اس سال جولائی سے اکتوبر تک فرقہ وارانہ بدامنی کے کئی واقعات میں 79 افراد مارے گئے تھے۔

ج ا ⁄ م م (اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں