1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

کرم میں 82 افراد کی ہلاکت کے بعد فائر بندی کا اعلان

25 نومبر 2024

ضلع کرم میں کئی دنوں کی شدید فرقہ وارانہ جھڑپوں کے بعد سات روزہ فائر بندی کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان جھڑپوں میں کم از کم 82 افراد ہلاک اور 156 زخمی ہوئے۔ فریقین نے قیدیوں اور لاشوں کے تبادلے پر بھی اتفاق کیا ہے۔

مرنے والوں میں 16 افراد سنی جبکہ 66 کا تعلق شیعہ برادری سے تھا
مرنے والوں میں 16 افراد سنی جبکہ 66 کا تعلق شیعہ برادری سے تھاتصویر: REUTERS

پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع  کرم میں متحارب گروپوں نے سات روزہ فائر بندی پر اتفاق کر لیا ہے۔ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کے ترجمان محمد علی سیف نے کہا، ''دونوں فریقین نے سات روزہ فائر بندی پر اتفاق کیا ہے، جس کے دوران وہ قیدیوں کا تبادلہ اور ایک دوسرے کو لاشیں بھی واپس کریں گے۔‘‘

ایک دوسرے مقامی اہلکار نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ دونوں طرف سے لاپتہ ہونے والے 20 افراد کی واپسی کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

تازہ ترین جھڑپوں کا آغاز جمعرات کو اس وقت ہوا، جب شیعہ مسلمانوں کے دو الگ قافلوں پر گھات لگا کر حملہ کیا گیا، جس میں کم از کم 43 افراد ہلاک ہوئے اور اس کے بعد فریقین کے مابین دو دن تک لڑائی جاری رہی۔

مقامی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، '' 21، 22 اور 23 نومبر کو ہونے والیجھڑپوں اور قافلوں پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں 82 افراد ہلاک اور 156 زخمی ہوئے ہیں۔‘‘

اس اہلکار کا مزید کہنا تھا، ''مرنے والوں میں 16 افراد سنی جبکہ 66 کا تعلق شیعہ برادری سے تھا۔‘‘

مرنے والوں میں 16 افراد سنی جبکہ 66 کا تعلق شیعہ برادری سے تھاتصویر: Dilawer Khan/AFP/Getty Images

ہفتے کے روز تقریباً 300 خاندان متاثرہ علاقے سے فرار ہو گئے جبکہ ہفتے کی رات تک ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے لڑائی جاری رہی۔ تاہم اتوار کی صبح کسی تازہ جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔

پاکستان: کرم کا 'دہشت گردانہ حملہ سراسر حیوانیت' ہے، شہباز شریف

مقامی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ کرم بھر میں موبائل نیٹ ورک بدستور بند ہے اور مرکزی شاہراہ پر ٹریفک بھی معطل ہے۔

فائر بندی کا معاہدہ صوبائی حکومت کے ایک وفد نے ہفتے کو شیعہ برادری کے ساتھ مذاکرات اور اتوار کو سنی برادری سے ملاقات کے بعد کیا ہے۔ صوبائی دارالحکومت پشاور میں ایک سکیورٹی اہلکار نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ مذاکرات کاروں کا ہیلی کاپٹر خطے میں پہنچتے ہی فائرنگ کی زد میں آ گیا تھا تاہم کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

جمعے کو پاکستان کے دو سب سے بڑے شہروں کراچی اور لاہور میں کئی سو افراد نے اس تشدد کے خلاف مظاہرہ کیاتصویر: K.M. Chaudary/AP/picture alliance

صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم آفریدی نے اتوار کو بتایا کہ ایک بار دیرپا جنگ بندی پر اتفاق ہو جانے کے بعد، ''ہم بنیادی مسائل کو حل کرنا شروع کر سکتے ہیں۔‘‘

گزشتہ ماہ بھی کرم میں فرقہ وارانہ تصادم میں تین خواتین اور دو بچوں سمیت کم از کم 16 افراد مارے گئے تھے۔

جولائی اور ستمبر میں ہونے والی  گزشتہ جھڑپوں میں بھی درجنوں افراد ہلاک ہوئے اور تب بھی فائر بندی ایک جرگے کے بعد ہی ہوئی تھی۔ پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کے مطابق جولائی اور اکتوبر کے درمیان فرقہ وارانہ جھڑپوں میں کم از کم 79 افراد ہلاک ہوئے۔

جمعے کو پاکستان کے دو سب سے بڑے شہروں کراچی اور لاہور میں کئی سو افراد نے اس تشدد کے خلاف مظاہرہ کیا۔

پاکستان ایک سنی اکثریتی ملک ہے لیکن افغانستان کی سرحد کے قریب واقع کرم کے علاقے میں شیعہ آبادی اکثریت میں ہے اور اس علاقے کی کمیونٹیز گزشتہ کئی دہائیوں سے تصادم کا شکار ہیں۔

ا ا / ش ر (اے ایف پی، روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں