1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فریب اور پارٹیاں بدلنا، پاکستانی سیاست میں معمول کی بات

Afsar Awan10 اپریل 2013

جمہوری ملکوں میں سیاسی جماعت بدلنے کے واقعات شاذو نادر ہی ہوتے ہیں اور اگر کبھی ایسا ہو بھی تو کسی سیاستداں کے پورے سیاسی کیریئر میں شاید ایک آدھ مرتبہ اور وہ بھی انتہائی سوچ وبچار کے بعد۔ مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔

تصویر: AP

1996ء میں سیاست میں قدم رکھنے کے بعد سے ارباب خضر حیات اب تک 14 مرتبہ پارٹیاں بدل چکے ہیں اور اتنی زیادہ مرتبہ پارٹی وفاداریاں بدلنے والے وہ اکلوتے سیاستدان نہیں ہیں۔ درجنوں دیگر سیاستدانوں کا بھی یہ دستور رہا ہے اور جوں جوں ملک میں 11 مئی کو ہونے والے انتخابات قریب آ رہے ہیں اس رحجان میں مزید تیزی آتی جا رہی ہے۔

سیاستدان ایسی جماعتوں کو تلاش کرتے ہیں جن کے حکومت میں آنے کا امکان روشن ہوتا ہےتصویر: AP

پاکستانی صوبہ خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور میں موجود ارباب خضر حیات کے گھر کے ڈرائنگ روم میں درجنوں تصاویر لگی ہوئی ہیں جن میں وہ سابق صدر غلام اسحاق خان اور سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے علاوہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

خضر حیات ایک ایسے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جو کافی عرصے سے سیاست میں موجود ہے۔ وہ اس وقت ملک کی تین بڑی اور ایک دوسرے کی مخالف جماعتوں، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک انصاف میں شامل رہ چکے ہیں۔ تاہم گزشتہ دو برس سے وہ مسلم لیگ نون کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اکثر سیاستدان نواز شریف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کو حکومت کے لیے فیورٹ سمجھ رہے ہیں۔

خضر حیات کا اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا،’جب میں واپس پاکستان مسلم لیگ نون میں گیا تو نواز شریف نے مجھے فون کیا اور مذاق میں کہا: ’آپ ہمارے ساتھ اس مرتبہ کتنا عرصہ رہیں گے‘۔‘‘

سیاسی وابستگیاں بدلنے والے سیاستدان کے لیے پاکستان میں ’لوٹا‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ خضر حیات سیاسی جماعتیں بدلنے کے اس عمل کے بارے بہت ہی صاف گو ہیں، ’’سیاست خیالات کے لیے نہیں بلکہ طاقت کے حصول کے لیے ہے۔ جب سیاستدان دیکھتے ہیں کہ کوئی جماعت مقبول ہو رہی ہے تو پھر وہ اسی میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔‘‘

’’جب سیاستدان دیکھتے ہیں کہ کوئی جماعت مقبول ہو رہی ہے تو پھر وہ اسی میں شامل ہونا چاہتے ہیں"تصویر: AP

سیاست میں نظریات کی بجائے پاکستان کے طبقاتی اور نیم جاگیردارانہ معاشرے میں اقرباء پروری اور سیاسی طور پر نوازنے کا عمل عام ہے۔ سیاستدان ایسی جماعتوں کو تلاش کرتے ہیں جن کے حکومت میں آنے کا امکان روشن ہوتا ہے اور جماعتیں ایسے سیاستدانوں کو ترجیح دیتے ہیں جو اپنے علاقے میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

پاکستان کے ایک معروف سیاسی تجزیہ کار رضا رومی کے مطابق، ’’ہمارے ہاں دو طرح کے سیاستدان ہیں۔ نصف ایسے جو اپنی جماعتوں کے ساتھ وفادار ہوتے ہیں، یعنی اگر وہ دائیں بازو کے نظریات رکھتے ہوں، ترقی پسند ہوں یا بائیں بازو کی سوچ رکھنے والے، وہ ہمیشہ اپنے نظریات سے وفادار رہتے ہیں۔ باقی کے آدھے وہ ہیں جو مفاد پرست ہیں اور موقعے کی تلاش میں ہوتے ہیں۔‘‘

aba/km (AFP)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں