فلسطينيوں کے تحفظ کے ليے قرارداد، امريکا کو نامنظور
1 جون 2018
امریکا نے اعلان کیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کویت کی جانب سے پیش ہونے والی اس قرارداد کو ویٹو کر دے گا، جس کے مسودے میں غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو تحفظ فراہم کرنے کی بات کی گئی ہے۔
اشتہار
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں کویت کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے اقوام متحدہ میں تعینات امریکا کی سفیر نکی ہیلی کا کہنا تھا،’’یہ سب یک طرفہ مواد ہے اور اخلاقی طور پر کھوکھلا ہے۔ اس کے ذریعے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن کے حصول کے اقدامات متاثر ہوں گے۔‘‘
امریکا نے اس حوالے سے اپنی قرارداد بھی پیش کر دی ہے جس میں غزہ کی بگڑتی صورتحال کا ذمہ دار حماس کو ٹہرایا گیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ’حماس اور اسلامی جہاد‘ اسرئیلی سرحدی علاقے کے ساتھ پرتشدد سرگرمیوں کو ختم کریں۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ امریکا کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد پر ووٹنگ ہو گی یا نہیں۔
کویت کی جانب سے قرارداد کا متن دو ہفتے پہلے سکیورٹی کونسل میں پیش کیا گیا تھا۔ اس مسودے میں فلسطینیوں کے لیے ایک بین الاقوامی تحفظ مشن بنائے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس سال مارچ کے اختتام سے اب تک اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے 122 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہیلی کا کہنا ہے کہ امریکا یقیناً اس قرارداد کو ویٹو کر دے گا۔
گزشتہ برس دسمبر میں ہیلی نے اس قرارداد کو بھی ویٹو کر دیا تھا، جس میں صدر ٹرمپ کے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے فيصلے کی مخالفت کی گئی تھی۔ اس قرارداد کی بقيہ ديگر ملکوں نے حمايت کی تھی۔ سکیورٹی کونسل کئی ہفتوں سے غزہ پٹی میں تشدد کے حوالے سے کوئی بھی ردعمل دینے میں ناکام رہی ہے حالاں کہ اقوام متحدہ کے مشرق وسطیٰ کے ليے مندوب کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ یہ بحران جنگ کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔
نکی ہیلی کا کہنا ہے کہ کویت کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد میں مطالبہ کيا گیا ہے کہ اسرائیل فوری طور پر اپنے دفاع میں ایکشن لینا چھوڑ دے جبکہ اس دستاویز میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز پر حماس کی جارحانہ کارروائیوں کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔ ہیلی نے اس موقع پر یورپی ممالک سے بھی کہا کہ اگر انہوں نے اس قرارداد کی حمایت کی تو وہ یہ ثابت کر دیں گے کہ وہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دیرپا مذاکراتی عمل کی حمایت نہیں کرتے۔
اس ہفتے منگل اور بدھ کی درمیانی شب اسرائیل میں غزہ کی طرف سے کئی راکٹ اور مارٹر گولے داغے گئے تھے۔ جوابی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیل نے غزہ میں عسکريت پسندوں کی 65 پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا تھا۔ تازہ لڑائی اور کشيدگی کو سن 2014 کے بعد دونوں فریقين کے مابين سب سے شدید کشیدگی کہا جا رہا ہے۔ سفارتکاروں کا کہنا کہ اگر فلسطینی سکیورٹی کونسل کی سطح پر یہ قرارداد منظور کرانے میں ناکام رہے تووہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی جا سکتے ہیں۔
کویت کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد کو منظور کرانے کے لیے سکیورٹی کونسل کے پندرہ رکن ممالک میں سے نو کے ووٹ درکار ہوں گے جبکہ پانچ مستقل ارکان کی طرف سے ایک بھی ویٹو نہیں ہونا چاہیے۔
دوسری جانب مشرق وسطیٰ ہی کے حوالے سے امريکی صدر ٹرمپ اسرائیل میں تعینات امریکی سفیر ڈيوڈ فريڈمين کو اب اس لیے زیادہ اختیارات دینے پر غور کر رہے ہیں تاکہ فلسطينیوں سے متعلق امور کے ليے مخصوص امریکی قونصل خانے کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں یروشلم میں امریکی قونصل جنرل، جو براہ راست فلسطینیوں کے ساتھ تعلقات اور ان کے امور کے ذمے دار ہیں، کی خود مختاری کو کم کرنے کی ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ سوچ کافی زیادہ علامتی اہمیت کی حامل ہے۔ ایسا کرنے سے مستقبل میں فلسطینیوں کی اپنی ایک الگ ریاست کے قیام کے خواب کو مزید دھچکا لگے گا۔
ب ج/ ع س (نیوز ایجنسیاں)
اسرائیل کے خلاف غزہ کے فلسطینیوں کے احتجاج میں شدت
اس علاقے میں تنازعے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ رواں برس کے دوران غزہ کی سرحد پر اسرائیل اور فلسطینی عوام کے درمیان کشیدگی انتہائی شدید ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Cohen
فروری سن 2018: سرحد پر بم
رواں برس سترہ فروری کو اسرائیل کی سرحد پر ایک بارودی ڈیوائس کے پھٹنے سے چار اسرائیلی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے مختلف مقامات پر فضائی حملے کیے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اقوام متحدہ کی امدادی سپلائی
غزہ پٹی کی نصف سے زائد آبادی کا انحصار اقوام متحدہ کے خصوصی امدادی ادارے UNRWA کی جانب سے ضروریات زندگی کے سامان کی فراہمی اور امداد پر ہے۔ اس ادارے نے پچیس فروری کو عالمی برادری کو متنبہ کیا کہ غزہ میں قحط کی صورت حال پیدا ہونے کا امکان ہے۔ امریکا نے فلسطینی لیڈروں کے اسرائیل سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے دباؤ بڑھانے کی خاطر امداد کو روک رکھا ہے۔ ادارے کے مطابق وہ جولائی تک امداد فراہم کر سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/S. Jarar'Ah
فلسطینی وزیراعظم پر حملہ
فلسطینی علاقے ویسٹ بینک کے الفتح سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم رامی حمداللہ جب تیرہ مارچ کو غزہ پہنچے، تو ان کے قافلے کو ایک بم سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ فلسطینی اتھارٹی نے اس کی ذمہ داری حماس پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیراعظم کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی تھی۔ رامی حمداللہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اسرائیل کی فضائی حملے
غزہ پٹی کی اسرائیلی سرحد پر ایک اور بارودی ڈیوائس ضرور پھٹی لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسرائیل نے اٹھارہ مارچ کو غزہ پٹی پر فضائی حملے کیے اور حماس کی تیار کردہ ایک سرنگ کو تباہ کر دیا۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
سرحد پر مظاہرے کرنے کا اعلان
غزہ پٹی کے فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر پرامن مظاہرے کرنے کا اعلان کیا۔ اس مظاہرے کا مقصد اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں واپسی بتائی گئی۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے واپسی کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
تیس مارچ سن 2018 کو تیس ہزار فلسطینی سن 1976 کے احتجاجی سلسلے کے تحت اسرائیلی سرحد کے قریب مظاہرے کے لیے پہنچے۔ بعض مظاہرین نے سرحد عبور کرنے کی کوشش کی اور یہ کوشش خاصی جان لیوا رہی۔ کم از کم سولہ فلسطینی مظاہرین اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے۔ کئی زخمی بعد میں جانبر نہیں ہو سکے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سرحد پر مظاہرے کا دوسرا راؤنڈ
چھ اپریل کو ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر احتجاج کیا۔ اس احتجاج کے دوران بھی اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کی۔ ایک صحافی کے علاوہ نو فلسطینی ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا، نیتن یاہو
اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ کے قریب اسرائیلی قصبے سدورت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی پالیسی واضح ہے کہ جو کوئی حملے کی نیت سے آگے بڑھے، اُس پر جوابی وار کیا جائے گا۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ غزہ سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسا کرنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Tibbon
اسرائیل کے خلاف مظاہروں کا تیسرا دور
مظاہروں کے تیسرے دور یعنی 13 اپریل کا آغاز منتظمین کے اس اعلان سے شروع ہوا کہ مظاہرین سرحد کے قریب احتجاج کے مقام پر رکھے اسرائیلی پرچم کے اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے گزریں۔
تصویر: Reuters/M. Salem
مظاہرین زخمی
13 اپریل کے مظاہرے کے دوران زخمی ہونے والے ایک شخص کو اٹھانے کے لیے فلسطینی دوڑ رہے ہیں۔ سرحدی محافظوں پر پتھر پھینکنے کے رد عمل میں اسرائیلی فوجیوں نے مظاہرین پر فائرنگ کی۔ 30 مارچ سے اب تک کم از کم 33 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں دیگر زخمی ہوئے۔