فلسطين کے ليے امريکی امداد معطل، ماہرين کيا کہتے ہيں؟
2 ستمبر 2018
ماہرين کے مطابق امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطينيوں کے ليے مالی امداد روکنے سے اسرائيلی مفادات کو تو فائدہ ضرور پہنچے گا تاہم اس سے امن عمل منفی انداز سے متاثر ہو گا اور مشرق وسطی ميں کشيدگی پھر بڑھ سکتی ہے۔
اشتہار
سابق اسرائيلی سفارتکار اور اب ايک تجزيہ کار ايلن بيکر کا کہنا ہے کہ فلسطينيوں کے ليے امريکی امداد کی کٹوتی کے حاليہ فيصلے سے اسرائيلی حکومت يقينی طور پر کافی خوش ہو گی۔ ان کے بقول اس اقدام کا مقصد فلسطينيوں پر دباؤ ڈال کر انہيں مذاکرات کے ليے آمادہ کرنا ہے۔ دوسری جانب صورت حال اب يہ ہے کہ امريکا کی جانب سے فلسطينيوں کو فراہم کردہ امداد بہت ہی کم رہ گئی ہے اور يورپی سفارت کاروں کا ماننا ہے کہ اس سے ٹرمپ کی پوزيشن کمزور ہو گی۔ ايلن بيکر کے مطابق، ’’جب آپ کے پاس انہيں دھمکی دينے يا ڈرانے دھمکانے کے ليے امداد روکنے کا ہتھکنڈا نہيں، تو آپ کی پوزيشن کمزور ہو گئی ہے۔‘‘
فلسطينی اقتصادی ماہر ناصر عبدالکريم نے خبر رساں ادارے اے ايف پی کو بتايا کہ امداد کی کٹوتی سے فلسطينیوں کو ضرور نقصان پہنچے گا ليکن اس سے فلسطينی اتھارٹی کی حکومت کو کوئی فرق نہيں پڑے گا۔ ان کے بقول امريکا فلسطينی اتھارٹی کو کوئی مالی امداد فراہم نہيں کرتا۔ اتھارٹی کو اسرائيل کے ساتھ سلامتی کے معاملات پر تعاون کی مد ميں کچھ رقوم مہيا کی جاتی ہيں جن ميں کٹوتی نہيں کی گئی ہے۔
فلسطينی تھنک ٹينک ’الشباکا‘ کی صدر ناديہ حجاب کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال ميں فلسطينيوں کے ليے مذاکرات کی ميز پر آنا کافی مشکل بات ہے۔ انہيں خدشہ ہے کہ مکمل امريکی حمايت کے ساتھ اسرائيل کو مقبوضہ علاقوں ميں آبادکاری مزيد بڑھانے کی کھلی چھوٹ ہو گی۔ حجاب نے کہا، ’’اگر فلسطينی اتھارٹی اس وقت مذاکرات پر آمادہ ہوتی ہے تو اس سے امريکا کو يہ پيغام ملے گا کہ وہ جو چاہيں کر سکتے ہيں اور اگر فلسطينی حکومت بات چيت نہيں کرتی، تو وہ وہی کريں گے جو وہ چاہتے ہيں۔‘‘
يورپی کونسل برائے خارجہ پاليسی کے ہيگ اوواٹ بھی اس سے متفق ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’اس سے اگر کچھ ہو گا، تو وہ يہ ہے کہ فلسطينی، امريکی انتظاميہ اور اس کی جانب سے قيام امن کے ليے سامنے آنے والے منصوبے کے بائيکاٹ کی ليے کوششيں دگنی کر ديں گے۔‘‘
فلسطينی تھنک ٹينک ’الشباکا‘ کی صدر ناديہ حجاب کا کہنا ہے کہ فلسطينيوں کا ايسا ماننا ہے کہ امريکا ان کی قيادت کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کی کوششوں ميں نہيں بلکہ ان کوششوں ميں ہے کہ اسرائيل کی مدد کی جائے تاکہ مشرق وسطی کا يہ تنازعہ اسرائيل کی خواہشات کے مطابق ختم ہو اور کی جانب سے فلسطينی علاقوں پر قبضہ جائز ہو جائے۔
’غزہ سے نکل نہيں سکتے ليکن تصاوير ہمارا پيغام عام کريں گی‘
غزہ پٹی ميں دو نوجوان لڑکياں ’انسٹاگرام‘ کی مدد سے دنيا کو اپنے علاقے کا ايک ايسا رخ دکھانے کی کوششوں ميں ہيں، جو اس علاقے کے حوالے سے پائے جانے والے عام تاثرات کے بالکل مختلف ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
تصاوير بولتی ہيں
چھبيس سالہ خولود نصر کہتی ہيں، ’’ميں انسٹاگرام کو ايک کھڑکی کے طور پر ديکھتی ہوں۔‘‘ گلابی رنگ کا حجاب پہنے ہوئے يہ باہمت نوجوان لڑکی، اپنے علاقے کا ايک مختلف پہلو اجاگر کرنا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے ليے نصر نے سوشل ميڈيا کا سہارا ليا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’دنيا ميری دسترس ميں‘
نصر کی اکيس سالہ ساتھی فاطمہ مسابہ بھی کچھ ايسے ہی خيالات رکھتی ہيں۔ مسابہ کے مطابق انٹرنيٹ کھولتے ہی پوری کی پوری دنيا کے لوگ ان کی دسترس ميں ہوتے ہيں۔ مجموعی طور پر ان دونوں لڑکيوں کے ’اسٹاگرام‘ پر قريب ايک لاکھ فالوئرز ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
بندشوں کا شکار غزہ
غزہ پٹی ميں لگ بھگ دو ملين لوگ آباد ہيں۔ يہ علاقہ شمال اور مشرق کی جانب اسرائيل کے ساتھ لگتا ہے، جنوب ميں مصر کے ساتھ اور مغرب ميں بحيرہ روم پڑتا ہے۔ غزہ کے شہريوں کو بلا اجازت اپنا علاقہ چھوڑنے کی اجازت نہيں۔ يہی وجہ ہے کہ نصر اور مسابہ قريب ايک دہائی سے غزہ سے باہر نہيں نکليں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’غزہ ميں صرف جنگ نہيں، اور بھی کچھ ہے‘
خولود نصر کا کہنا ہے، ’’جنگ غزہ کا حصہ ضرور ہے، ليکن يہاں صرف جنگ ہی نہيں۔ ميں يہ دکھانا چاہتی ہوں کہ دنيا کے کسی بھی اور ملک کی طرح يہاں اور بھی بہت کچھ ہے۔‘‘ اس کے بقول اب امريکا ہی کی مثال لے ليں، وہاں غربت بھی ہے اور دلکش مناظر بھی۔ وہ کہتی ہيں کہ انسٹاگرام پر تصاوير کے ذريعے وہ لوگوں کو دکھانا چاہتی ہيں کہ مقامی لوگ کس طرح اپنی زندگياں گزارتے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سوشل ميڈيا کا مثبت کردار
فلسطينی سوشل ميڈيا کلب کے سربراہ علی بخت کے مطابق غزہ ميں رہائش پذير تقريباً نصف لوگ فيس بک پر موجود ہيں ليکن اس کے مقابلے ميں ٹوئٹر اور انسٹا گرام پر سرگرم لوگوں کی تعداد کم ہے۔ ان کے بقول سالہا سال سے اسرائيلی بندشوں کی وجہ سے غزہ کے شہری اپنی آواز سنانے اور اظہار خيال کے ليے سوشل ميڈيا کو بروئے کار لاتے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’غزہ کا تاثر بدلنا ہے‘
فاطمہ مسابہ کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی ساکھ بدلنا چاہتی ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’ميرے نزديک سب سے اہم يہ ہے کہ بندشوں، جنگ اور تباہی کے علاوہ ہم يہاں کی خوبصورتی کو بھی دکھائيں۔‘‘ مسابہ اور نصر کی زيادہ تر تصاوير ميں وہ خود بھی دکھائی ديتی ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
آمدنی بھی، سروس بھی
مسابہ کے ليے ان کا انسٹاگرام آمدنی کا ذريعہ بھی ہے۔ وہ ماہانہ بنيادوں پر ڈھائی سو يورو کے قريب کما ليتی ہيں۔ ان کے پيج پر اشتہارات سے انہيں يہ رقم ملتی ہے۔ ايک ايسے خطے ميں جہاں نوجوانوں ميں بے روزگاری کی شرح ساٹھ فيصد سے بھی زيادہ ہے، وہاں مسابہ نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔