فلسطینیوں کی اسرائیلیوں سے شادیاں: متنازعہ قانون پھر متعارف
11 مارچ 2022
اسرائیلی پارلیمان نے ایک ایسا عارضی لیکن متنازعہ قانون بحال کر دیا ہے، جس کا مقصد ملکی شہریوں سے شادیاں کرنے والے غزہ پٹی اور ویسٹ بینک کے فلسطینیوں کو اسرائیلی شہریت کے حصول یا وہاں رہائش کے حقوق حاصل کرنے سے روکنا ہے۔
اشتہار
اسرائیلی پارلیمان نے اکثریتی رائے سے جمعرات دس مارچ کو رات گئے ماضی کے جس متنازعہ لیکن عارضی طور پر متعارف کرائے گئے قانون کی بحالی کا فیصلہ کیا، وہ پہلی مرتبہ 2003ء میں نافذ کیا گیا تھا۔ اس قانون کے نفاذ کی مدت میں گزشتہ برسوں کے دوران بار بار توسیع کی جاتی رہی تھی۔
یہ قانون پہلی مرتبہ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی احتجاجی تحریک انتفادہ کے دور میں منظور کیا گیا تھا۔ اسرائیل کا موقف ہے کہ اسے اس قانون کی اپنی سلامتی کے لیے ضرورت ہے۔ اس کے برعکس ناقدین کا الزام ہے کہ اس قانون کا نفاذ اسرائیل کا ایک 'نسل پرستانہ‘ اقدام ہے، جس کا مقصد ملک میں یہودی اکثریت کے تسلسل کو یقینی بنانا ہے۔
ایک دوسری بات یہ کہ اس قانون کا اطلاق صرف فلسطینیوں پر ہوتا ہے اور مغربی کنارے کے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں رہنے والے یہودی آباد کاروں پر نہیں کیونکہ ان کے پاس ویسٹ بینک میں رہتے ہوئے بھی اسرائیلی شہریت ہوتی ہے۔
کنیسیٹ کہلانے والی پارلیمان نے گزشتہ برس موسم گرما میں بھی اس قانون کو بحال کرنے کی کوشش کی تھی، تاہم تب اسے مخلوط حکومت میں شامل بائیں بازو کے اور عرب ارکان پارلیمان کی حمایت حاصل نہ ہو سکی تھی۔
حکومت میں شامل عرب جماعت نے اب بھی حمایت نہ کی
سابق وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی قیادت میں ملکی اپوزیشن نے بھی اس متنازعہ قانون کی بحالی کی اصولی حمایت تو کی، تاہم حکومت کو شرمندگی سے بچانے کے لیے رائے شماری کے دوران اس قانون کے حق میں ووٹ نہ دیا۔
یوں اپوزیشن کی بالواسطہ حمایت کے ساتھ حکومت اس قانون کو منظور کرانے میں کامیاب ہو گئی، حالانکہ بائیں بازو کی جماعت میریٹس اور اسرائیلی عربوں کی جماعت متحدہ عرب لسٹ نے بھی اس قانون کی حمایت نہیں کی تھی۔ یونائیٹڈ عرب لسٹ نامی جماعت نے گزشتہ برس اس وقت تاریخ رقم کر دی تھی، جب یہ پارٹی موجودہ مخلوط حکومت میں شامل ہو گئی تھی۔
اشتہار
یہودی اکثریت کا تسلسل یقینی بنانے کی کوشش کا اعتراف
اسرائیل کی کٹر قوم پسند خاتون وزیر داخلہ گزشتہ کئی مہینوں کے دوران اس متنازعہ قانون کی بحالی کی مہم چلاتی رہی تھیں۔ وہ اس قانون کی بحالی سے قبل یہ کوششیں بھی کرتی رہی تھیں کہ مختلف اقدامات کے ذریعے اسرائیلی شہریوں کی غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں سے شادیوں کے بعد ان کے خاندانی ملاب کا راستہ روکا جائے۔
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔
وزیر داخلہ آیلت شاکد اور کئی دیگر اسرائیلی حکام یہ اعتراف بھی کر چکے ہیں کہ دیگر امور کے علاوہ اس قانون کا ایک مقصد اس بات کو یقینی بنانا بھی ہے کہ اسرائیل کی آبادی میں یہودی آئندہ بھی اکثریت ہی میں رہیں۔
مجموعی آبادی میں عربوں کا تناسب بیس فیصد
اس قانون کی بحالی کے بعد اسرائیلی پارلیمان کے ایک عرب رکن ایمن عودة نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں اسے 'نسلی امتیاز والی ریاست‘ کی فتح قرار دیا۔
نیوز ایجنسی اے پی نے اس بارے میں اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ شہریت اور اسرائیل میں داخلے کے اس قانون سے زیادہ تر اسرائیل کی عرب اقلیتی آبادی متاثر ہو گی۔
اسرائیل کی مجموعی طور پر 9.5 ملین کی آبادی میں عرب نسل کے شہریوں کا تناسب تقریباﹰ 20 فیصد ہے اور ان عربوں کے عام طور پر غزہ پٹی اور مغربی کنارے کے فلسطینی علاقوں میں رہنے والے عربوں سے قریبی خاندانی تعلقات ہوتے ہیں۔
م م / ع ا (اے پی، اے ایف پی)
اسرائیل فلسطین تنازعہ، دو سو سے زائد فلسطینی ہلاک
اسرائیل اور فلسطین حالیہ تاریخ کے بدترین تنازعہ میں گھرے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ پٹی پر فضائی بمباری اور حماس کے جنگجوؤں کی جانب سے اسرائیل میں راکٹ داغنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک نظر اس تنازعہ پر
تصویر: Fatima Shbair/Getty Images
اسرائیل پر راکٹ داغے گئے
دس مئی کو حماس کی جانب سے مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر اسرائیل پر راکٹ داغے گئے۔ اسرائیل کی جانب سے جوابی کارروائی میں غزہ پر بھاری بمباری کی گئی۔ تشدد کا یہ سلسلہ مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں اور اسرائیلی سکیورٹی فروسزکے درمیان تصادم کے بعد شروع ہوا۔
تصویر: Fatima Shbair/Getty Images
تل ابیب میں راکٹ داغے گئے
گیارہ مئی کو اسرائیل کی جانب سے غزہ کے مرکز میں بمباری کی گئی جوابی کارروائی کرتے ہوئے حماس کی جانب سے تل ابیب میں راکٹ داغے گئے۔
تصویر: Cohen-Magen/AFP
فرقہ وارانہ تشدد
اگلے روز اسرائیل میں فلسطینی اور یہودی آبادیوں میں تناؤ اور کشیدگی کی رپورٹیں آنا شروع ہوئی۔ اور فرقہ وارانہ تشدد کے باعث ایک اسرائیلی شہری ہلاک ہوگیا۔ پولیس کی جانب سے تل ابیب کے ایک قریبی علاقے میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ پولیس نے چار سو سے زائد عرب اور یہودی افراد کو حراست میں لے لیا۔
تصویر: Cohen-Magen/AFP
ہنگامی اجلاس
بارہ مئی کو روس کی جانب سے یورپی یونین، امریکا اور اقوم متحدہ کے اراکین کے ساتھ اس بگڑتی صورتحال پر ایک ہنگامی اجلاس بلایا گیا۔
تصویر: Ahmad gharabli/AFP
جنگی گاڑیاں اور فوجی تعینات
تیرہ مئی کو اسرائیل کی جانب سے غزہ کی سرحد کے پاس جنگی گاڑیاں اور فوجی تعینات کر دیے گئے۔ اگلے روز اسرائیل کے زیر انتظام مغربی کنارے میں فلسطینیوں اور اسرائیلی پولیس کے درمیان جھڑپوں میں گیارہ افراد ہلاک ہو گئے۔
تصویر: Mussa Qawasma/REUTERS
مہاجرین کے کیمپ پر اسرائیلی بمباری
پندرہ مئی کو غزہ میں قائم مہاجرین کے کیمپ پر اسرائیلی بمباری سے ایک ہی خاندان کے دس افراد ہلاک ہو گئے۔ کچھ ہی گھنٹوں پر اسرائیلی نے بمباری کرتے ہوہے ایک ایسی عمارت کو مسمار کر دیا گیا جس میں صحافتی ادارے الجزیرہ اور اے پی کے دفاتر تھے۔ اس عمارت میں کئی خاندان بھی رہائش پذیر تھے۔ بمباری سے ایک گھنٹہ قبل اسرائیل نے عمارت میں موجود افراد کو خبردار کر دیا تھا۔
تصویر: Mohammed Salem/REUTERS
حماس کے رہنماؤں کے گھروں پر بمباری
اگلے روز اسرائیل کی جانب سے حماس کے مختلف رہنماؤں کے گھروں پر بمباری کی گئی۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق ان حملوں میں بیالیس فلسطینی ہلاک ہو گئے۔ اقوام متحدہ کے سکریڑی جنرل کی جانب سے اس تنازعہ کو فوری طور پر ختم کیے جانے کی اپیل کی گئی۔
تصویر: Mahmud Hams/AFP
'اسلامک اسٹیٹ' کا ایک کمانڈر ہلاک
سترہ مئی کو دہشت گرد تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ' کی جانب سے کہا گیا کہ اسرائیلی بمباری میں ان کا ایک کمانڈر ہلاک ہو گیا ہے۔ دوسری جانب اقرام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں امریکا کی جانب سے تیسری مرتبہ اسرائیلی فلسطینی تنازعہ پر اس مشترکہ بیان کو روک دیا گیا جس میں تشدد کے خاتمے اور شہریوں کو تحفظ پہنچانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
تصویر: Said Khatib/AFP
دو سو سے زائد فلسطینی ہلاک
اس حالیہ تنازعہ میں اب تک دو سو سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں سے قریب ساٹھ بچے ہیں۔ تیرہ سو سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
تصویر: Ahmad Gharabli/AFP/Getty Images
تین ہزار سے زائد راکٹ فائر کئے گئے
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ حماس کی جانب سے تین ہزار سے زائد راکٹ فائر کئے گئے ہیں جن کے باعث ایک بچے سمیت دس اسرائیلی شہری ہلاک ہو گئے ہیں۔
ب ج، ا ا (اے ایف پی)